غلام محمد لون عرف پاپا کشتواڑی 1990 کی دہائی کے وسط میں ملٹنسی مخالف بندوق برداروں کی تنظیم اخوان المسلون کا اہم لیڈر تھا جسے اسوقت کی گورنر انتظامیہ اور سرکاری فورسز کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ایک نیم فوجی فورس سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ جنوبی کشمیر کے پانپور قصبے میں واقع جوائنری ملز میں بحیثیت محافظ تعینات ہوا تھا لیکن عسکریت مخالف تنظیموں کے معرض وجود میں آنے کے بعد وہ اخوان میں شامل ہوا اور اپنی ایک ملیشیا قائم کی۔
26 جون سنہ 1996 میں پاپا کشتواڑی نے میبنہ طور پر نشاط سے تعلق رکھنے والے ایک کنٹریکٹر علی محمد میر کو اغوا کیا اور انہیں ٹارچر کرکے قتل کردیا اور لاش کو دریائے جہلم میں پھینک دیا۔
دریائے جہلم کے کنارے پانپور میں اپنی رہائش گاہ کو کشتواڑی نے ایک قلعے میں تبدیل کیا تھا جہاں مبینہ طور بندوق کی نوک پر اغوا کئے گئے افراد کو ٹارچر کیا جاتا تھا اور موت کی صورت میں انہیں دریا میں پھینک دیا جاتا تھا۔ کشتواڑی نے 1992 میں ہری نواس محل میں 52 بندوق برداروں کے ہمراہ حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور بعد میں ملیٹنسی مخالف آپریشنز کی قیادت شروع کی تھی۔
پانپور کے مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ کشتواڑی کے بندوق برداروں نے علاقے میں جبر و ظلم کا بازار گرم کیا تھا۔
ایک مقامی معمر صحافی شیخ غلام رسول نے پولیس کی طرف سے بلائی گئی ایک میٹنگ میں کشتواڑی کی حرکتوں کی شکایت کی تھی جس کے کئی روز بعد انہیں نامعلوم افراد نے اغوا کیا۔
اغوا کے ایک ہفتے کے بعد غلام رسول شیخ کی لاش دریائے جہلم میں پائی گئی ۔ لاش کے ساتھ پتھر باندھ کر اسے دریا میں بہایا گیا تھا۔
کشتواڑی نے اخوان دور کے خاتمے کے بعد سیاست میں حصہ لینا شروع کیا جبکہ انکہ اہلیہ حفیظہ بیگم نے اسمبلی اور پارلیمنٹ انتخابات میں بھی بطور امیدوار شرکت کی۔
مقامی لوگوں کے مطابق کشتواڑی کے دور میں قصبے میں متعدد نوجوان اغوا کے بعد ہلاک کئے گئے لیکن انکے اہل خانہ نے خوف کی وجہ سے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔
تاہم کشتواڑی کے ظلم و ستم کا دور اسوقت ختم ہوا جب مقتول کنٹریکٹر علی محمد میر کے فرزندظہور احمد میر نے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کی۔ میر کی درخواست پر نشاط پولیس تھانے میں ایف آئی آر نمبر 16/2007 درج ہوا جس کے بعد کشتواڑی اور اسکے دو بندوق برداروں غلام محمد گنائی اور خورشید احمد گنائی کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
کشتواڑی نے کئی انٹرویوز میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انکا استدلال تھا کہ یہ افراد عسکریت پسندوں کے حمایتی تھے۔
عدالت میں کئی بار کشتواڑی نے ضمانت پر رہائی یا کیس کو دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست دی جسے مسترد کیا گیا۔
علی محمد میر کے اہل خانہ ہر برس 26 جون کو سرینگر پریس کالونی کے باہر پاپا کشتواڑی کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ رہا ہے کہ انہیں انصاف دلایا جائے۔