ETV Bharat / state

Shrinking Dal and Wular Lake ڈل، ولر کا سکڑتا رقبہ، ناسا تصاویر اور ماہرین

ناسا کی جانب سے ڈل اور ولر جھیلوں کے سکڑتے رقبے کی تصاویر جاری کرنے پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس ضمن میں فوری طور ٹھوس اور پائیدار اقدامات اٹھائے جانے کی تلقین کی ہے۔

ڈل، ولر کا سکڑتا رقبہ، ناسا تصاویر اور ماہرین
ڈل، ولر کا سکڑتا رقبہ، ناسا تصاویر اور ماہرین
author img

By

Published : Jun 28, 2023, 2:56 PM IST

سرینگر (جموں و کشمیر): حال ہی میں نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) ’’NASA‘‘ نے سیٹلائٹ کے ذریعے عکس کی گئی تصاویر - سیٹلائٹ امیجز - جاری کیں جن میں کشمیر کی معروف جھیلوں - ولر اور ڈل - کے تنگ ہونے کو ظاہر کیا گیا۔ اس حوالہ سے ماہرین نے خبردار کیا کہ جھیلوں کے تنگ ہونے سے حیاتیاتی تنوع اور لوگوں کی روزی روٹی پر منفی اثر پڑے گا۔ 12 جون کو ناسا نے ولر اور ڈل جھیل کی سیٹلائٹ تصاویر جاری کی تھی۔ یاد رہے کہ ڈل اور ولر مقامی آبادی کو نہ صرف پینے کا پانی فراہم کرتی ہیں بلکہ دونوں جھیلیں ایک وسیع زرعی اراضی کو بھی سیراب کرتی ہیں۔

کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ جیو انفارمیٹکس کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان رشید نے کہا کہ ’’یہ آبی وسائل کشمیر کی سماجی و اقتصادی اور ماحولیاتی بہبود کے لیے اہم ہیں۔‘‘ ناسا تصاویر کے حوالہ سے انہوں نے کہا: ’’جب جھیلیں سکڑتی ہیں تو اس کا اثر لوگوں کی سماجی، اقتصادی صورتحال پر پڑتا ہے۔ ماحول دوست انفراسٹرکچر کا تصور نہ ہونے سے اس کا منفی اثر ماحولیات کے ساتھ ساتھ ان آبی ذخائر پر بھی مرتب ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ سرینگر میں بہت زیادہ زرعی اراضی ہوا کرتی تھی اور ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ نے دس سال پہلے تصدیق کی تھی کہ نصف زرعی (آبی اول) اراضی ختم ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’زرعی (خاص کر آبی اول) اراضی اور آبی ذخائر خاص کر ڈل جھیل، ہیگام، ہوکر سر، نار کرہ اور وولر کے ارد گرد غیر منصوبہ بند شہر کاری (Urbanization)، تعمیری سرگرمیوں نے ان آبی ذخائر کے ساتھ ساتھ زرعی اراضی کو بھی ختم کر دیا۔‘‘

مزید پڑھیں: Fish Die in Dal Lake: ڈل جھیل میں ہزاروں مچھلیوں کی پر اسرار موت

عرفان نے پیشگوئی کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کبھی بھی سیلاب امڈ آ سکتا ہے، اور یہ جھیلیں اور ویٹ لینڈز (سیلابی صورتحال کے دوران) پانی کو جذب کرتے ہیں۔ ہم نے بہت سے آبی ذخائر کو کھو دیا ہے اور سیلاب آنے والے ہیں۔ اس کا لوگوں اور ان کے ذرائع معاش پر طویل مدتی اثر پڑے گا۔ حیاتیاتی تنوع کم ہو رہا ہے۔ اور لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہوئے اثرات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔‘‘

ہائیڈرولک انجینئرنگ کے ماہر اور ماہر ماحولیات اعجاز رسول کے مطابق: ’’ناسا کی سیٹلائٹ تصاویر 2020 میں لی گئی تھیں، اور اس کے بعد دونوں جھیلوں میں بہت زیادہ ڈیویڈنگ اور ڈریجنگ کا کام کیا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’یہ غلط ہے، اور ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ جھیلیں سکڑ گئی ہیں۔ گھاس ڈالی گئی ہے۔ موجودہ صورتحال مختلف ہے۔ 2020 کے بعد ڈل جھیل میں جموں و کشمیر لیکس کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی (ایل سی ایم اے) نے متعدد تبدیلیاں نافذ کی ہیں، جن میں جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔ ولر جھیل میں بھی ڈیویڈنگ ہو رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اگر ڈل جھیل میں تجاوزات کی کوششیں ہوتی ہیں تو حکام کارروائی کرتے ہیں۔ حکام کو اس وقت تک اقدامات کرنے چاہئیں جب تک کہ ڈل جھیل میں آلودگی پر پوری طرح سے قابو نہ پایا جائے۔‘‘

سرینگر (جموں و کشمیر): حال ہی میں نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) ’’NASA‘‘ نے سیٹلائٹ کے ذریعے عکس کی گئی تصاویر - سیٹلائٹ امیجز - جاری کیں جن میں کشمیر کی معروف جھیلوں - ولر اور ڈل - کے تنگ ہونے کو ظاہر کیا گیا۔ اس حوالہ سے ماہرین نے خبردار کیا کہ جھیلوں کے تنگ ہونے سے حیاتیاتی تنوع اور لوگوں کی روزی روٹی پر منفی اثر پڑے گا۔ 12 جون کو ناسا نے ولر اور ڈل جھیل کی سیٹلائٹ تصاویر جاری کی تھی۔ یاد رہے کہ ڈل اور ولر مقامی آبادی کو نہ صرف پینے کا پانی فراہم کرتی ہیں بلکہ دونوں جھیلیں ایک وسیع زرعی اراضی کو بھی سیراب کرتی ہیں۔

کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ جیو انفارمیٹکس کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان رشید نے کہا کہ ’’یہ آبی وسائل کشمیر کی سماجی و اقتصادی اور ماحولیاتی بہبود کے لیے اہم ہیں۔‘‘ ناسا تصاویر کے حوالہ سے انہوں نے کہا: ’’جب جھیلیں سکڑتی ہیں تو اس کا اثر لوگوں کی سماجی، اقتصادی صورتحال پر پڑتا ہے۔ ماحول دوست انفراسٹرکچر کا تصور نہ ہونے سے اس کا منفی اثر ماحولیات کے ساتھ ساتھ ان آبی ذخائر پر بھی مرتب ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ سرینگر میں بہت زیادہ زرعی اراضی ہوا کرتی تھی اور ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ نے دس سال پہلے تصدیق کی تھی کہ نصف زرعی (آبی اول) اراضی ختم ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’زرعی (خاص کر آبی اول) اراضی اور آبی ذخائر خاص کر ڈل جھیل، ہیگام، ہوکر سر، نار کرہ اور وولر کے ارد گرد غیر منصوبہ بند شہر کاری (Urbanization)، تعمیری سرگرمیوں نے ان آبی ذخائر کے ساتھ ساتھ زرعی اراضی کو بھی ختم کر دیا۔‘‘

مزید پڑھیں: Fish Die in Dal Lake: ڈل جھیل میں ہزاروں مچھلیوں کی پر اسرار موت

عرفان نے پیشگوئی کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کبھی بھی سیلاب امڈ آ سکتا ہے، اور یہ جھیلیں اور ویٹ لینڈز (سیلابی صورتحال کے دوران) پانی کو جذب کرتے ہیں۔ ہم نے بہت سے آبی ذخائر کو کھو دیا ہے اور سیلاب آنے والے ہیں۔ اس کا لوگوں اور ان کے ذرائع معاش پر طویل مدتی اثر پڑے گا۔ حیاتیاتی تنوع کم ہو رہا ہے۔ اور لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہوئے اثرات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔‘‘

ہائیڈرولک انجینئرنگ کے ماہر اور ماہر ماحولیات اعجاز رسول کے مطابق: ’’ناسا کی سیٹلائٹ تصاویر 2020 میں لی گئی تھیں، اور اس کے بعد دونوں جھیلوں میں بہت زیادہ ڈیویڈنگ اور ڈریجنگ کا کام کیا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’یہ غلط ہے، اور ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ جھیلیں سکڑ گئی ہیں۔ گھاس ڈالی گئی ہے۔ موجودہ صورتحال مختلف ہے۔ 2020 کے بعد ڈل جھیل میں جموں و کشمیر لیکس کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی (ایل سی ایم اے) نے متعدد تبدیلیاں نافذ کی ہیں، جن میں جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔ ولر جھیل میں بھی ڈیویڈنگ ہو رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اگر ڈل جھیل میں تجاوزات کی کوششیں ہوتی ہیں تو حکام کارروائی کرتے ہیں۔ حکام کو اس وقت تک اقدامات کرنے چاہئیں جب تک کہ ڈل جھیل میں آلودگی پر پوری طرح سے قابو نہ پایا جائے۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.