سرینگر (جموں و کشمیر): ’’ہم نے سرے سے ہی حد بندی کمیشن اور اس کی سفارشات کو ہی مسترد کر دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کے بارے میں عدالت نے کیا فیصلہ صادر کیا۔‘‘ ان باتوں کا اظہار جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی صدر محبوبہ مفتی نے سپریم کورٹ میں حد بندی کمیشن کے قیام کو چیلنج کرنے والی عرضی کو خارج کیے جانے کے بعد کہا۔ پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے عائد کیا کہ ’’اسمبلی نشستوں میں سر نو حد بندی در اصل انتخابات میں دھاندلی کا ایک عمل ہے جو الیکشن سے پہلے انجام دیا جاتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے پیر کو جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی نشستوں کی سر نو حد بندی کو چلینج کرنے والی عرضی کو خارج کر دیا۔
محبوبہ مفتی نے اس سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جنوبی کشمیر کے قصبہ بجبہاڑہ میں نامہ نگاروں کو بتایا: ’’ہم نے حد بندی کمیشن کو سرے سے ہی مسترد کیا ہوا ہے اس کے بارے میں کیا فیصلہ آتا ہے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ: ’’دفعہ370 اور جموں و کشمیر تنظیم نو قانون پہلے ہی عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہیں تو اس پر فیصلہ کیسے سنایا جا سکتا ہے۔‘‘
سابق وزیر اعلیٰ نے حد بندی کو ’’الیکشن میں بی جے پی کو کامیاب بنانے کی سازش‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’بی جے پی کے حق میں اقلیتی فرقے کو اکثریتی فرقے اور اکثریتی فرقے کو اقلیتی فرقے میں تبدیل کر دیا گیا‘۔ ایک سوال کے جواب میں محبوبہ مفتی نے کہا ’’ہر کسی کی آخری امید عدالت ہی ہوتی ہے اور ایک غریب عدالت کے سوا اور کہاں جا سکتا ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Delimitation Commission سپریم کورٹ نے حد بندی کمیشن کے خلاف دائر عرضی خارج کر دی
یاد رہے کہ جموں و کشمیر حدبندی کمیشن سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں گزشتہ دو برسوں سے جاری تھی۔ حدبندی کمیشن کے خلاف سرینگر کے دو سیاسی رہنماؤں نے عرضی دائر کی تھی۔ عبدالغنی خان اور ڈاکٹر محمد ایوب متو نے عدالت عظمیٰ میں حدبندی کمیشن کو چیلنج کیا تھا۔ عرضی گزاروں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ’’آئین کی دفعہ 170 کے مطابق حد بندی سنہ 2026 کے بعد انجام دی جائے گی لیکن جموں کشمیر میں چھ برس قبل ہی حد بندی کا انعقاد آئین اور قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘ تاہم اس عرضی کو سپریم کورت نے خارج کر دیا۔