جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ریاست اتر پردیش کی ایک عدالت کے باہر کشمیری طلبا کے ساتھ بدتمیزی کیے جانے کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے وکلا سمیت اتر پردیش پولیس کی شدید نکتہ چینی کی۔
یاد رہے کہ ریاست اتر پردیش میں زیر تعلیم کشمیری طلبا کو T20 ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی تاریخی فتح کا مبینہ طور جشن منانے کے الزام میں گرفتار کیے جانے کے بعد آگرہ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کشمیری طلباء کو کورٹ میں پیش کیے جانے سے قبل عدالت کے باہر ہنگامہ آرائی کے دوران ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔
سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کو ٹویٹ کرتے ہوئے اس معاملے کی مذمت کی۔ انہوں نے وکلا سمیت اترپردیش پولیس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
عمر عبداللہ نے ٹویٹ میں کہا: ’’T20 ورلڈ کپ میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کی جیت کا مبینہ طور پر جشن منانے کے الزام میں گرفتار تین کشمیری طلبا کے ساتھ آگرہ میں وکلا کا سلوک ناقابل قبول اور پولیس کا کردار مشکوک ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گرفتار کیے گئے کشمیری طلبا، جن پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، کو آگرہ کی ایک عدالت نے جمعرات کو 14 دن کے لیے عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔
مزید پڑھیں: گرفتار کشمیری طالب علم کی والدہ نے حکومت سے فریاد کی
عمر عبداللہ نے ٹویٹ میں مزید کہا کہ ’’وکلا کا رویہ ناقابل قبول اور پولیس کا کردار مشکوک ہے۔ کشمیری طلبا کے ساتھ دوستی کرنے کے بجائے انہیں سیاست کے نام پر بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ وہ بھی ایک اسے وقت میں جب انتخابات قریب ہیں۔‘‘
عمر عبداللہ نے تینوں کشمیری طالب علموں کو کالج انتظامیہ کی جانب سے کلین چٹ دیے جانے کے باوجود اتر پردیش حکومت کی جانب سے حراست میں لئے جانے پر حیرت کا اظہار کیا۔
انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا، ’’کالج کے حکام نے ان طلبا کو کلین چٹ دے دی ہے اور تصدیق کی ہے کہ انہوں نے نعرے بازی نہیں کی۔ کالج کی یقین دہانی کا احترام کرنے کے بجائے یوپی پولیس ان غریب بچوں کو ہراساں کر رہی ہے۔‘‘