مایوسی اور پریشانی میں بیٹھے یہ دستکار اور ان خالی کارخانوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ان افراد کی مالی حالت کس قدر ابتر ہوگی۔ یہ کاریگر پہلے ہی بڑی مشکل سے اپنے گھر کا گزارا چلاتے تھے لیکن اب یہ افراد اُس نہایت ہی قلیل آمدنی سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔کیونکہ پشمینہ، قالین بافی، شالبافی، سوزنی، پیپر ماشی اور وڈ کارونگ وغیرہ کا عالمی مارکیٹ ٹھپ پڑا ہے۔ جس کے نتیجے میں امسال دستکاری شعبے کو 150کروڑ کا نقصان ہوا اور گزشتہ دو برس کے دوران یہ شعبہ 1650کروڑ روپے کے خسارے سے دو چار ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق ہر برس شال، قالین اور پیپر معاشی کے علاوہ دیگر دستکاری برآمدات پر تقریبا 1700 کروڑ زر مبادلہ کمایا جاتا ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی اور بیرون ممالک کے بازاروں میں مندی کے باعث کشمیری دستکاری کی برآمدات پر ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران 70 ہزار کے قریب افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ جن میں سے 50 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ طلب میں کمی کے ساتھ ہی مزدوری کی اخراجات بھی کم ہو رہے ہیں۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شیخ عاشق کہتے ہیں کہ ایک وقت دستکاری سے برآمدات میں کشمیری دستکاری کا حصص 20 فیصد ہوتا تھا جو سمٹ کر ایک فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: منوج سنہا اور دگ وجے سنگھ کے بیان پر رہنماؤں کا ردعمل
کورونا کی موجودہ صورتحال کے بیچ دستکاری مصنوعات کی بین الاقوامی مارکیٹنگ ساز گار ہونے کے فی الحال کم ہی آثار نظر آ رہے ہیں۔ تاہم صنعت سے وابستہ افراد کہتے ہیں کہ دستکاری صنعت کی معاشی بحالی کے لیے روڈ میپ تیار کیا جائے۔ وہیں کاریگروں اور ہنر مندوں کے لیے قرضوں میں بھی چھوٹ دی جائے۔
سنہ 2014 میں کشمیری دستکاری کی برآمدات 1700کروڑ تھی جو کہ گزشتہ برس 600 کروڑ روپے تک پہنچی ہے۔