سپریم کورٹ نے جمعہ کو حد بندی کمیشن کی تجویز کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کی سماعت کے دوران پر مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے جواب طلب کیا۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے حد بندی پینل نے مرکز کے زیر انتظام خطے (جموں و کشمیر) میں اسمبلی نشستوں کو 83 سے بڑھا کر 90 کرنے کی سفارش کے علاوہ پارلیمانی و اسمبلی نشستوں میں پھیر بدل کیا ہے۔ Hearing in SC on Plea Challenging J&K Delimitation Report
سپریم کورٹ میں حد بندی کمیشن کی سفارشات کو چیلنج کرنے والی درخواست میں کمیشن کی جانب سے اسمبلی نشستوں میں اضافے کو بھارتی آئین کے دفعہ 81، 82، 170 اور 330 اور 332 اور جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کی دفعہ 63 کی خلاف ورزی قرار دے کر سفارشات کو کالعدم قراری دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ Plea in SC Challenging
جموں و کشمیر کے رہائشیوں کی جانب سے دائر کی گئی عرضی میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ حد بندی ایکٹ 2022 کے تحت تشکیل شدہ حد بندی کمیشن کو اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے مرکزی سرکار سمیت جموں و کشمیر کی لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے جواب طلب کیا ہے۔ SC on J&K Delimitation Reportاس معاملے کی اگلی سماعت 30 اگست کو ہوگی۔
گذشتہ ہفتے ایک پینل، جس کو جموں و کشمیر کے حلقوں کا از سر نو خاکہ تیار کرنے کا کام سونپا گیا تھا، نے مشق کو مکمل کرتے ہوئے انتخابی نقشے کو حتمی شکل دی اور خطے میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ J&K Delimitation Report, Supreme Court Issues Notice to GoI, J&K Admin حد بندی کمیشن کی سفارشات، نشستوں میں پھیر بدل دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کے حوالے سے پہلا بڑا اقدام مانا جا رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مرکزی سرکار کی جانب سے تعینات کی گئی تین رکنی حد بندی کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ میں ہندو اکثریتی خطہ جموں کے لیے 43 اور مسلم اکثریتی علاقہ وادی کشمیر کے لیے 47 نشستیں رکھنے کی سفارش کی۔ J&K Delimitation Report اضافہ کی گئی سات نئی نشستوں میں سے چھ جموں جب کہ کشمیر میں محض ایک نشست کا اضافہ کیا گیا۔ حد بندی کمیشن کی رپورٹ پر سبھی غیر بی جے پی سیاسی جماعتیں اعتراض ظاہر کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج بھی کر رہی ہیں۔