جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے بدھ کے روز ایک بار پھر سے اپنی والدہ پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
محبوبہ مفتی کو گزشتہ برس چار اور پانچ اگست کی درمیانی رات کو حراست میں لیا گیا تھا اور تب سے وہ ابھی تک نظر بند ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے التجا نے کہا 'میری والدہ کو زیر حراست رکھنا غیر قانونی ہے۔ ان کا باہر کی دنیا کے ساتھ کوئی بھی رابطہ نہیں ہے یہاں تک کہ ان کا لینڈ لائن فون بھی بند کر دیا گیا ہے۔ وہ ایک سیاسی رہنما ہیں اور گزشتہ ایک برس سے زیر حراست ہیں'۔
ان کا کہنا ہے 'میں نے گزشتہ ہفتے عدالت عظمی کا دروازہ ایک بار پھر سے کھٹکھٹایا۔ میں اپنی عرضی کے ذریعے عدالت کو دکھانا چاہتی ہوں کہ جموں و کشمیر انتظامیہ عدالت عظمی کے ہدایات کی کتنی عزت کرتا ہے۔ رواں برس فروری کے مہینے میں عدالت عظمیٰ نے انتظامیہ کو کچھ احکامات جاری کیے تھے تاہم انتظامیہ نے ابھی تک کوئی بھی جواب نہیں دیا ہے'۔
التجا نے کہا 'میں عدالت کے نوٹس میں لانا چاہتی ہوں کہ میری والدہ کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے۔ انہیں کس طریقے سے پارٹی لیڈران اور کارکنان سے دور رکھا جا رہا ہے۔ کیسے وہ پارٹی کے صدر کی ذمہ داریاں نبھا نہیں پا رہی ہیں'۔
التجا نے دعوی کیا ہے کہ ان کی والدہ کو اتنے عرصے تک زیر حراست رکھنے کی وجہ بس یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک کسی بھی بانڈ پر دستخط نہیں کیا۔
التجا نے مزید کہا 'میری والدہ پر بار بار زور دیا جا رہا ہے کہ وہ بانڈ پر دستخط کریں۔ جس کا انہوں نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ بانڈ کے مطابق وہ اپنی رہائی کے بعد جموں و کشمیر کے حوالے سے مرکزی حکومت کی جانب سے لیے گئے فیصلوں پر اپنے خیالات ظاہر نہیں کریں گی۔ کیونکہ ان کے بیانات کی وجہ سے خطے میں امن و امان کو خطرہ پہنچ سکتا ہے'۔
یہ بھی پڑھیے
راجیہ سبھا کی کاروائی غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی
واضح رہے کہ محبوبہ مفتی پر رواں برس جنوری کے مہینے میں پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا تھا۔ پی ایس اے ڈویژن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے والد کی "ڈیڈیز گرل" ہے اور ان کی سیاست غیر جانبدارانہ ہے۔"