گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے جہاں مختلف قوانین میں تبدیلی ہوئی ہے۔ وہیں حکومت کے کئی ادارے بھی بند ہوئے ہیں۔
ان میں 'اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن' یعنی جموں و کشمیر انسانی حقوق کمیشن بھی شامل ہے جو بند ہو گیا ہے۔
اس کمیشن میں چیئرپرسن، جو ایک سابق جج ہوا کرتے تھے، سمیت کئی ملازمین تعینات تھے اور ہر روز یہاں جموں و کشمیر کے لوگ اپنے حقوق کے متعلق شکایات درج کرکے انصاف کی امید رکھتے تھے۔
ذرائع کے مطابق اس کمیشن میں 3100 کے قریب لوگوں کی شکایات درج کی گئی تھیں جن کی سماعت کمیشن کرتا تھا۔
تاہم پانچ اگست کے بعد مذکورہ کمیشن کا دفتر بھی بند ہے اور حکومت نے اس کو کالعدم کیا ہے۔ اگرچہ حکومت نے کمیشن کے ملازمین کو دوسری محکموں میں منتقل کیا ہے۔ اس کمیشن میں لوگوں کی شکایتوں یا مقدموں کے بارے میں کوئی بھی لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا گیا ہے۔
سرینگر عدالت عالیہ میں وکیل شفقت نظیر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'کمیشن میں وہ شکایتیں درج ہوتی تھیں جہاں حکومت نے لوگوں کے حقوق پامال کیے تھے۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'کمیشن کیسز کی سماعت کے بعد حکومت کو اپنی تجاویز پیش کرکے لوگوں کی شکایتوں کا ازالہ کرتا تھا۔'
انہوں ںے بتایا کہ 'کمیشن بند ہونے سے لوگ پریشان ہیں اور اس میں درج کی ہوئی شکایتیں دھول کھا رہی ہیں۔'
تاہم سات مہینے گزرنے کے بعد حکومت نے اس کمیشن کے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر یو ٹی کے محکمہ قانون کے سکریٹری آچل سیٹھی نے بتایا کہ 'حکومت نے ابھی تک اس کمیشن کے متعلق کوئی ہدایت جاری نہیں کی ہے۔'