ETV Bharat / state

Article 370 Hearing in SC سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی سماعت پر ابھی تک کے سفر پر ردعمل

چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ آرٹیکل 370 نے سابقہ ​​ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا، لیکن 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا گیا۔

article-370-hearing-in-supreme-court-what-politicians-high-court-lawyers-and-common-people-feel
سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی سماعت پر ابھی تک کے سفر پر ردعمل
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 2, 2023, 8:58 PM IST

سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی سماعت پر ابھی تک کے سفر پر ردعمل

سرینگر: جموں کشمیر کو بھارت کے آئین میں دفعہ 370 کے تحت خصوصی حیثیت کی منسوخی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر عرضیوں کی سماعت دو اگست سے جاری ہے۔سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی منسوخی کی سماعت پر جموں و کشمیر کے سیاسی جماعتوں اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔

اگرچہ سپریم کوٹ کے پانچ جج بنچ کی جانب سے ابھی حتمی فیصلہ آنے میں وقت لگ سکتا ہے تاہم کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو امید ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف پیش کی گئی قانونی و آئینی دلائل سے سپریم کوٹ یہاں کے لوگوں کی امنگوں کے مطابق فیصلہ سنا سکتا ہے، تاہم عام لوگوں کی رائے کچھ مختلف ہے اور اس خصوصی حیثیت کی منسوخی سے مایوسی ابھی بھی برقرار ہے۔

سپریم کورٹ میں عرضی گزاروں کے وکلاء نے اپنی دلائل مکمل کر لی ہے اور گزشتہ تین سماعتوں کے دوران مرکزی سرکار کے سالسٹر جنرل تشار مہتا سرکار کا موقف پیش کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں سے ہوئی سماعتوں کے بحث و مباحثے میں بنچ بالخصوص چیف جسٹس آف انڈیا دھننجے یشونت چندرچوڑ نے حد بندی اور 35 اے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ حد بندی پر عدالت نے اپنا فیصلہ ایک الگ عرضی پر سنایا ہے۔ 35 اے پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون آئین ہند کے تین بنیادی حقوق کے مخالف تھا۔

ریاستی درجے کی بحالی پر سرکار کے سالسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے بعد ریاستی درجے کی بحالی ہوگی، لیکن انہوں نے وقت اور تاریخ کے متعلق وضاحت پیش نہیں کی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ خطہ لداخ کو یونین ٹریٹری کا درجہ دینا ابھی ایک حتمی فیصلہ ہے جو واپس نہیں کیا جائے گا۔

جموں کشمیر کے سینیئر سیاسی لیڈر و سی پی آئی ایم کے سینیئر رہنما یوسف تاریگامی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہیںامید ہے کہ سپریم کورٹ جموں کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے حق میں فیصلہ سنائی گی اور لوگوں کے ساتھ انصاف کرے گی۔

عام لوگوں میں مایوسی کے متعلق تاریگامی نے کہا کہ اس کی وجہ ہے یہاں کے لوگ مایوسی کے بھنور میں رہ رہے ہیں اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا کھلواڑ کیا گیا، لیکن مایوسی صورتحال کا علاج نہیں ہے۔

نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے بتایا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی عرضی بہت مضبوط ہے اور جو دلائل ان کے وکیل کپل سبل نے پیش کیں ہیں وہ قانونی اور آئینی لحاظ سے کافی مضبوط ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک چیف جسٹس آف انڈیا نے جس طرح سے سرکار کے سالسٹر جنرل سے سوالات پوچھے ہیں اور آئینی اور قانونی دائرے میں دلائل پیش کرنی کی ہدایت دی ہے اس سے امید ہے کہ عدالت عظمی جموں کشمیر کے حق میں فیصلہ دے گی۔

اپنی پارٹی کے صوبائی صدر منتظر محی الدین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں بنیادی عرضی دفعہ 370 کی بحالی کے متعلق ہے اور اس دوران جو بھی عدالت کی طرف سے مشاہدات کیے گئے ہیں وہ سب ضمنی ہے اور حتمی فیصلہ ہی حتمی ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے سالسٹر جنرل کی جانب سے جو دلائل میں ریاستی درجہ، الیکشن کے متعلق جو بیانات دیئے جارہے ہیں وہ اصل ہدف سے نشانہ ہٹھانے کی کوشش ہے۔

مزید پڑھیں: Article 370 Hearing In SC سالسٹر جنرل تشہار مہتا کے موقف پر سیاسی جماعتوں کا ردعمل

کشمیر میں ماہر قانون نے سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی منسوکی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاری سماعت پر کہا کہ ان کو عدالت پر امید ہے کیوںکہ سماعت کے دوران مثبت انداز میں عرضی گزاروں کے وکلاء نے دلائل پیش کی ہیں اور بنچ نے بھی منصفانہ طریقے میں دلائل کو سنا۔

جموں کشمیر ہائی کورٹ میں سینیئر وکیل جی این شاہین نے اس حوالے سے بتایا کہ بنچ بہترین طریقے سے سماعت کررہا ہے اور ابھی تک شفافیت کے ساتھ بنچ دلائل سن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار سالسٹر جنرل کی طرف سے جو سیاسی دلائل ڈی جارہی ہے ان کو بنچ مسترد کررہا ہے کیونکہ عدالت میں قانون اور آئین پر مبنی دلیل قابل قبول ہوتی ہے نہ کہ کسی پارٹی کا سیاسی نظریہ۔ سینیئر وکیل ریاض خاور نے اس حوالے سے بتایا کہ لوگوں کو عدالت پر بھروسہ اور اعتماد رکھنا چاہئے کیونکہ ابھی تک کی سماعت کے دوران عدالت نے منصفانہ طریقے سے اس مقدمے کو سنا ہے۔

واضح رہے کہ 5 اگست 2019 کو مرکز نے جموں وکشمیر کی نیم خود مختاری دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف جموں و کشمیر کی مختلف پارٹیوں نے مزکز کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی سماعت پر ابھی تک کے سفر پر ردعمل

سرینگر: جموں کشمیر کو بھارت کے آئین میں دفعہ 370 کے تحت خصوصی حیثیت کی منسوخی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر عرضیوں کی سماعت دو اگست سے جاری ہے۔سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی منسوخی کی سماعت پر جموں و کشمیر کے سیاسی جماعتوں اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔

اگرچہ سپریم کوٹ کے پانچ جج بنچ کی جانب سے ابھی حتمی فیصلہ آنے میں وقت لگ سکتا ہے تاہم کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو امید ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف پیش کی گئی قانونی و آئینی دلائل سے سپریم کوٹ یہاں کے لوگوں کی امنگوں کے مطابق فیصلہ سنا سکتا ہے، تاہم عام لوگوں کی رائے کچھ مختلف ہے اور اس خصوصی حیثیت کی منسوخی سے مایوسی ابھی بھی برقرار ہے۔

سپریم کورٹ میں عرضی گزاروں کے وکلاء نے اپنی دلائل مکمل کر لی ہے اور گزشتہ تین سماعتوں کے دوران مرکزی سرکار کے سالسٹر جنرل تشار مہتا سرکار کا موقف پیش کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں سے ہوئی سماعتوں کے بحث و مباحثے میں بنچ بالخصوص چیف جسٹس آف انڈیا دھننجے یشونت چندرچوڑ نے حد بندی اور 35 اے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ حد بندی پر عدالت نے اپنا فیصلہ ایک الگ عرضی پر سنایا ہے۔ 35 اے پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون آئین ہند کے تین بنیادی حقوق کے مخالف تھا۔

ریاستی درجے کی بحالی پر سرکار کے سالسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے بعد ریاستی درجے کی بحالی ہوگی، لیکن انہوں نے وقت اور تاریخ کے متعلق وضاحت پیش نہیں کی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ خطہ لداخ کو یونین ٹریٹری کا درجہ دینا ابھی ایک حتمی فیصلہ ہے جو واپس نہیں کیا جائے گا۔

جموں کشمیر کے سینیئر سیاسی لیڈر و سی پی آئی ایم کے سینیئر رہنما یوسف تاریگامی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہیںامید ہے کہ سپریم کورٹ جموں کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے حق میں فیصلہ سنائی گی اور لوگوں کے ساتھ انصاف کرے گی۔

عام لوگوں میں مایوسی کے متعلق تاریگامی نے کہا کہ اس کی وجہ ہے یہاں کے لوگ مایوسی کے بھنور میں رہ رہے ہیں اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا کھلواڑ کیا گیا، لیکن مایوسی صورتحال کا علاج نہیں ہے۔

نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے بتایا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی عرضی بہت مضبوط ہے اور جو دلائل ان کے وکیل کپل سبل نے پیش کیں ہیں وہ قانونی اور آئینی لحاظ سے کافی مضبوط ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک چیف جسٹس آف انڈیا نے جس طرح سے سرکار کے سالسٹر جنرل سے سوالات پوچھے ہیں اور آئینی اور قانونی دائرے میں دلائل پیش کرنی کی ہدایت دی ہے اس سے امید ہے کہ عدالت عظمی جموں کشمیر کے حق میں فیصلہ دے گی۔

اپنی پارٹی کے صوبائی صدر منتظر محی الدین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں بنیادی عرضی دفعہ 370 کی بحالی کے متعلق ہے اور اس دوران جو بھی عدالت کی طرف سے مشاہدات کیے گئے ہیں وہ سب ضمنی ہے اور حتمی فیصلہ ہی حتمی ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے سالسٹر جنرل کی جانب سے جو دلائل میں ریاستی درجہ، الیکشن کے متعلق جو بیانات دیئے جارہے ہیں وہ اصل ہدف سے نشانہ ہٹھانے کی کوشش ہے۔

مزید پڑھیں: Article 370 Hearing In SC سالسٹر جنرل تشہار مہتا کے موقف پر سیاسی جماعتوں کا ردعمل

کشمیر میں ماہر قانون نے سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی منسوکی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاری سماعت پر کہا کہ ان کو عدالت پر امید ہے کیوںکہ سماعت کے دوران مثبت انداز میں عرضی گزاروں کے وکلاء نے دلائل پیش کی ہیں اور بنچ نے بھی منصفانہ طریقے میں دلائل کو سنا۔

جموں کشمیر ہائی کورٹ میں سینیئر وکیل جی این شاہین نے اس حوالے سے بتایا کہ بنچ بہترین طریقے سے سماعت کررہا ہے اور ابھی تک شفافیت کے ساتھ بنچ دلائل سن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار سالسٹر جنرل کی طرف سے جو سیاسی دلائل ڈی جارہی ہے ان کو بنچ مسترد کررہا ہے کیونکہ عدالت میں قانون اور آئین پر مبنی دلیل قابل قبول ہوتی ہے نہ کہ کسی پارٹی کا سیاسی نظریہ۔ سینیئر وکیل ریاض خاور نے اس حوالے سے بتایا کہ لوگوں کو عدالت پر بھروسہ اور اعتماد رکھنا چاہئے کیونکہ ابھی تک کی سماعت کے دوران عدالت نے منصفانہ طریقے سے اس مقدمے کو سنا ہے۔

واضح رہے کہ 5 اگست 2019 کو مرکز نے جموں وکشمیر کی نیم خود مختاری دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف جموں و کشمیر کی مختلف پارٹیوں نے مزکز کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.