ETV Bharat / state

ایک دہائی میں کتوں کے کاٹنے کے 60 ہزار معاملات - چھوٹا اہسپتال بھی موجود نہیں ہے

جس طرف بھی نظر پڑتی ہے آوارہ کتے نظر آتے ہیں۔ دوکانوں کے سامنے، کھڑی گاڑیوں کے نیچے اور سڑک کے کنارے کتے اپنا ڈھیرہ جمائے ہوتے ہیں۔

dog bites
کتے نے کاٹا
author img

By

Published : Jul 7, 2021, 8:10 PM IST

وادی میں آوارہ کتوں کی بڑھتی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔ کتوں کو انسانی خون کا اس قدر چسکا لگا ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران صرف صدر ہسپتال سرینگر کے اینٹی ریبیز کلینک میں 60 ہزار ایسے مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جنہیں کتوں نے کاٹ لیا تھا اور ان میں سے 80 فیصد معاملات کا تعلق صرف سرینگر شہر سے تھا۔

کتے نے کاٹا

ایک رپورٹ کے مطابق سرینگر اور جموں کی میونسپل حدود میں سالانہ 10 ہزار لوگوں کو آوارہ کتے کاٹتے ہیں وہیں دیگر قصبہ جات اور دیہات میں بھی لوگوں کے تئیں آوارہ کتوں کے ذریعے کاٹے جانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

کتوں کی بڑھتی آبادی کو قابو میں کرنے کے لیے گزشتہ دس برس کے دوران کوئی موثر حکمت عملی وجود میں نہیں لائی گئی ہے۔ شہامہ سرینگر میں کتوں کی افزائش کو کم کرنے کی خاطر چند کمروں پر مشتمل ایک ہسپتال تو ہے لیکن موجودہ سہولت کے اعتبار سے اور کتوں کی آبادی کے حساب سے وہ نہ کے برابر ہے۔ اور جس رفتار سے وہاں کتوں کی نس بندی عمل میں لائی جاتی ہے اس سے کتوں کی آبادی پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

جس طرف بھی نظر پڑتی ہے آوارہ کتے نظر آتے ہیں۔ دوکانوں کے سامنے، کھڑی گاڑیوں کے نیچے اور سڑک کے کنارے کتے اپنا ڈھیرہ جمائے ہوتے ہیں جبکہ نکڑ، گلی کوچے اور ہر محلے میں آوارہ کتوں کی بھر مار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری اداکار ثاقب وانی سے ایک ملاقات

ادھر سرینگر کو چھوڑ وادی کے دیگر اضلاع میں شہامہ جیسے چھوٹا ہسپتال بھی موجود نہیں ہیں ایسے میں کتوں کی آبادی کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی لوگ غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کر کے کوڑا کرکٹ اور دیگر فضلہ سڑک پر پھینک کر نہ صرف عفونت پھیلاتے ہیں بلکہ آوارہ کتوں کی آبادی میں اضافے کا باعث بننے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ لیکن یہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ میونسپل اداروں کے پاس بھی کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے جدید طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ اس سنگین مسئلے کی جانب فوری توجہ دے اور آوارہ کتوں کو قابو میں کرنے کے لیے موثر اور کارگر اقدامات کرے۔ تاکہ انسانوں کو کتوں کے کاٹنے سے بچایا جا سکے۔

وادی میں آوارہ کتوں کی بڑھتی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔ کتوں کو انسانی خون کا اس قدر چسکا لگا ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران صرف صدر ہسپتال سرینگر کے اینٹی ریبیز کلینک میں 60 ہزار ایسے مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جنہیں کتوں نے کاٹ لیا تھا اور ان میں سے 80 فیصد معاملات کا تعلق صرف سرینگر شہر سے تھا۔

کتے نے کاٹا

ایک رپورٹ کے مطابق سرینگر اور جموں کی میونسپل حدود میں سالانہ 10 ہزار لوگوں کو آوارہ کتے کاٹتے ہیں وہیں دیگر قصبہ جات اور دیہات میں بھی لوگوں کے تئیں آوارہ کتوں کے ذریعے کاٹے جانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

کتوں کی بڑھتی آبادی کو قابو میں کرنے کے لیے گزشتہ دس برس کے دوران کوئی موثر حکمت عملی وجود میں نہیں لائی گئی ہے۔ شہامہ سرینگر میں کتوں کی افزائش کو کم کرنے کی خاطر چند کمروں پر مشتمل ایک ہسپتال تو ہے لیکن موجودہ سہولت کے اعتبار سے اور کتوں کی آبادی کے حساب سے وہ نہ کے برابر ہے۔ اور جس رفتار سے وہاں کتوں کی نس بندی عمل میں لائی جاتی ہے اس سے کتوں کی آبادی پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

جس طرف بھی نظر پڑتی ہے آوارہ کتے نظر آتے ہیں۔ دوکانوں کے سامنے، کھڑی گاڑیوں کے نیچے اور سڑک کے کنارے کتے اپنا ڈھیرہ جمائے ہوتے ہیں جبکہ نکڑ، گلی کوچے اور ہر محلے میں آوارہ کتوں کی بھر مار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری اداکار ثاقب وانی سے ایک ملاقات

ادھر سرینگر کو چھوڑ وادی کے دیگر اضلاع میں شہامہ جیسے چھوٹا ہسپتال بھی موجود نہیں ہیں ایسے میں کتوں کی آبادی کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی لوگ غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کر کے کوڑا کرکٹ اور دیگر فضلہ سڑک پر پھینک کر نہ صرف عفونت پھیلاتے ہیں بلکہ آوارہ کتوں کی آبادی میں اضافے کا باعث بننے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ لیکن یہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ میونسپل اداروں کے پاس بھی کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے جدید طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ اس سنگین مسئلے کی جانب فوری توجہ دے اور آوارہ کتوں کو قابو میں کرنے کے لیے موثر اور کارگر اقدامات کرے۔ تاکہ انسانوں کو کتوں کے کاٹنے سے بچایا جا سکے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.