جموں و کشمیر دنیا بھر میں سیاحت کے لیے مشہور ہے، اس کی وادیوں میں کئی ایسی انوکھی نعمتیں بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے اس خطے کو جنت نشاں کہا جاتا ہے۔
ان نعمتوں میں زندگی بخش پانی بھی شامل ہے جو جموں و کشمیر کے اکناف و اطراف میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ صرف پینے اور کھیتوں کو سیراب کرنے یا بجلی پیدا کرنے کیلئے ہی اس پانی کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ کئی جگہوں پر موجود پانی کو قدرت نے بیماریوں سے شفا پانے کا بھی ذریعہ بنایا ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پانی سے کیسے بیماریوں سے نجات ملتی ہے؟۔ آئیے اس سوال کا جواب تفصیل سے جانتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں اکثر آپ کو برفیلے پہاڑ اور ٹھنڈے چشمے نظر آئیں گے، لیکن اسی وادی میں کچھ ایسے مقامات بھی ہیں، جہاں گرم پانی کے چشمے بھی موجود ہیں، جن سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں۔
یہ گرم چشمے کسی ایک جگہ پر موجود نہیں ہیں بلکہ کئی مقامات پر یہ چشمے پائے جاتے ہیں۔
ان گرم چشموں کو جموں وکشمیر کی مقامی زبان میں 'تتا پانی' کہا جاتا ہے، جموں و کشمیر اور لداخ میں 20 مقامات پر لوگ تتا پانی سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ سرحد کے اس پار بھی کشمیر کے علاقے میں مشہور زمانہ تتا پانی کے چشمے موجود ہیں۔
گرم چشمے یعنی ہاٹ اسپرنگس کو ہائیڈروتھرمل اسپرنگ اور جیو تھرمل اسپرنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ جیو تھرمل ہیٹِڈ گراونڈ واٹر ہے جو ارتھ کرسٹ سے سطح پر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان: دونوں بازوؤں سے معذور اسنوکر کھلاڑی محمد اکرام
گرم چشموں میں بہت سارے کمیکیل ایلیمینٹس پائے جاتے ہیں، جن میں میگنیشیئم، پوٹاشیئم، سوڈیئم اور سلفر شامل ہے۔ پانی میں موجود ان عناصر کی مدد سے کئی بیماریوں سے نجات مل سکتی ہے۔
کشمیر میں موجود 20 مقامات میں سے ضلع راجوری کی تحصیل کالاکوٹ میں واقع تتا پانی، ضلع کشتواڑ کے دور دراز گاوں واڈون میں تتا پانی اور لداخ میں موجود گرم چشمے عوام میں بہت مشہور ہیں۔
سالہا سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان گرم چشموں کی وجہ سے کئی بیماریوں سے نجات پا رہے ہیں۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جوڑوں کا درد اور جلد کی بیماریوں سے متاثرہ مریض یہاں سے غسل کرکے صحتیاب ہوتے ہیں۔
تتا پانی کے مناظر سے لوگوں کو روبرو کرانے کے لئے ای ٹی وی بھارت کی ٹیم نے ضلع کشتواڑ کے دور دراز گاوں مڑوا واڈون میں پیر پنچال کی سرسبز اور اونچی پہاڑیوں کے درمیان دریائے چناب کے دامن میں واقع تتا پانی کا دورہ کیا۔
اس چشمہ کا پانی کافی گرم ہے مگر شدت کی تپش محسوس ہونے کے باوجود انسان کی جلد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اکثر لوگ اسے قدرت کا معجزہ مانتے ہیں تاہم بعض لوگ اسے طبی خصوصیت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ تتا پانی نایاب جڑی بوٹیوں کا عرق ہے۔
تتا پانی کے اس مقام تک پہنچنے کے لیے لوگ اننت ناگ سے 150 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ موسم سرما کے دوران بھاری برف باری کے بعد مذکورہ علاقے کا سڑک رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔
اس مقام تک پہنچنے میں لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لوگ پہلے خستہ حال سڑک پر 20 کلو میٹر گاڑی سے سفر طے کرتے ہیں، اس کے بعد 5 کلو مٹر پیدل مسافت طے کر کے اس مقام تک پہنچتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
خصوصی رپورٹ : گجر بکروال قبیلے کی تاریخ اور ان کے پیچیدہ مسائل
خطے میں تتا پانی کے ان مقامات تک پہنچنے میں لوگ صدیوں سے مشکلات کا سامنا کرتے آرہے ہیں اور آج بھی حالات نہیں بدلے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ قدرت کی عطا کردہ ان نعمتوں سے عوام کو مستفید کرائے۔ اور دور دراز سے یہاں شفا پانے آنے والوں کی رہائش کا بھی معقول نظم کرے۔