ETV Bharat / state

جموں و کشمیر میں دربار مو موضوع بحث کیوں؟

author img

By

Published : May 14, 2020, 2:46 PM IST

دربار مو یعنی دارالحکومت کی منتقلی کی روایت ڈوگرا راج کے دوران ہوئی، اس وقت مہاراجہ رنبیر سنگھ نے سنہ 1872 میں جموں و کشمیر کیلئے دو دارلحکومتوں کا اعلان کیا۔

darbar
darbar

مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر میں ان دنوں دربار مو ہر خاص و عام کے لیے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

دربار کا تعلق کاروبار حکومت کے ساتھ ہے۔ شخصی دور میں جب جموں و کشمیر کو ملک کشمیر کہا جاتا تھا اور آزادی کے بعد جب اسے ریاست کا درجہ ملا تو کاروبار حکومت چلانے کیلئے دو شہروں جموں اور سرینگر کو دارالحکومت کا درجہ ملا۔

موسم گرما وارد ہوتے ہی دربار سرینگر میں لگتا ہے اور سردیوں کا آغاز ہوتے ہی حکمران اپنا بوریا بسترہ سمیٹ کر جموں منتقل ہوتے ہیں۔

دارالحکومت کے اسی ششماہی سفر کو دربار مو کہتے ہیں۔ یہ ایک روایت ہے جو دہائیوں سے بلا ناغہ چلی آرہی ہے۔

دربار مو موضوع بحث کیوں؟

گزشتہ سال اگست میں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا۔

اس وقت دربار سرینگر میں تھا اور پوری ریاست سخت ترین بندشوں کی زد میں لائی گئی لیکن ان بندشوں کے باوجود دربار مو اپنے وقت پر ہوا اور تمام اعلیٰ دفاتر جموں منتقل کئے گئے۔

لیکن جموں سے دفاتر کی واپس منتقلی اب موضوع بحث بن گئی ہے۔ حکام کہتے ہیں کہ دفاتر کی منتقلی میں تاخیر ہوگی کیونکہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں دربار کے لاؤ ولشکر کو منتقل کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

سول سیکرٹریٹ جموں و کشمیر
سول سیکرٹریٹ جموں و کشمیر

گذشتہ 148 سالوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے دربار مو میں دیری کی جارہی ہے۔

یہ معاملہ اب ہائیکورٹ پہنچ گیا جہاں ایک ڈویذن بینچ نے انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ یہ دیکھیں کہ آیا دربار مو کی روایت برقرار رکھنا فائدہ مند ہے یا نہیں۔

جموں و کشمیر میں دربار مو کب سے شروع ہوا، اس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

دربار مو یعنی دارالحکومت کی منتقلی کی روایت ڈوگرا راج کے دوران ہوئی، اس وقت مہاراجہ رنبیر سنگھ نے سنہ 1872 میں جموں و کشمیر کیلئے دو دارلحکومتوں کا اعلان کیا۔

یہ کہا جارہا ہے کہ دربار مو جموں و کشمیر کے دو متنوع لسانی اور ثقافتی علاقوں کے مابین جذباتی اتحاد کا آئینہ دار ہے۔

مہاراجہ رنبیر سنگھ
مہاراجہ رنبیر سنگھ

موجودہ وقت میں دربار مو کے دوران قریب 10 ہزار ملازمین جموں سے سرینگر اور بعد میں سرینگر سے جموں منتقل ہوجاتے ہیں۔

جموں و کشمیر میں دربار مو کے دوران الگ ہی رونقیں ہوتی ہیں، لوگوں کا ماننا ہے کہ جب دارالحکومت کی منتقلی کا وقت قریب آنے لگتا ہے تو حکومت سڑکوں، گلیوں و عمارتوں کی تزئین کاری شروع کرتی ہے۔

دربار کے ساتھ حکومت کا سارا ریکارڈ بھی منتقل ہوتا ہے۔ دفتروں میں پڑی ساری فائلوں کو سمیٹ کر صندوقوں میں مہر بند کیا جاتا ہے اور بعد میں ٹرکوں میں لاد کر ایک شہر سے دوسرے شہر روانہ کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ صرف سرکاری ریکارڈ اور ملازمین کی منتقلی نہیں ہوئی بلکہ ملازمین کے کنبے اور کاروبار حکومت سے منسلک دیگر ہزاروں افراد بھی اس قافلے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

دارالحکومت کی منتقلی کے وقت
دارالحکومت کی منتقلی کے وقت

حکومت کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کی منتقلی میں سالانہ 200 کروڑ سے زیادہ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

شاید یہی شہ خرچی ہے جس کا نوٹس عدالت عالیہ نے لیا ہے اور موجودہ سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں، زمانہ قدیم کی اس روایت کو برقرار رکھنے پر سوال اٹھایا ہے۔

ہائیکورٹ کی چیف جسٹس گیتا متل کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتطامیہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ دربار کے حوالے سے حتمی فیصلہ لیں کہ آیا اس روایت کو برقرار رکھنا لازمی ہے یا نہیں۔

عدالت نے اعتراف کیا ہے کہ حتمی فیصلہ لینا انکے حد اختیار میں نہیں چنانچہ عدالت نے یہ معاملہ وزارت داخلہ کے سیکریٹری اور مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے چیف سیکیٹری کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔

عدالت کے 93 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ڈویژن بینچ نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اس وقت کے مہاراجا نے سنہ 1872 میں جو روایت شروع کی، اسے آج بھی برقرار رکھنا ضروری ہے یا نہیں؟

کورٹ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے موسم کو دیکھتے ہوئے اس وقت مہاراجہ رنبیر سنگھ نے دو دارالحکومتوں کو تشکیل دیا تھا، لیکن آج ہم موسم کو کنٹرول کرنے والی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنا کام کر سکتے ہیں۔

جموں و کشمیر ہائی کورٹ
جموں و کشمیر ہائی کورٹ

کورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ روایت شروع ہوئی تھی تب اس میں کچھ افسران اور تھوڑا بہت سامان ایک دارلحکومت سے دوسرے میں منتقل ہوتا تھا الیکن اب دربار میں 151 دفاتر، 10 ہزار ملازمین، سامان سے لدے ہوئے ہزاروں ٹرکس کو ایک سے دوسرے دارالحکومت میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اور اس کام میں تقریباً 200 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ داخلہ امور کے مرکزی سکریٹری اور جموں و کشمیر کے چیف سکریٹری دربار مو پر کیا فیصلہ لیتے ہیں اور جموں و کشمیر کی دو دارالحکومتوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر دربار کو ایک ہی شہر میں ساکت کیا جائے گا تو دوسرے شہر یا خطے کے لوگوں کا ردعمل کیا ہوگا۔ دربار، جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے اور اس میں کوئی بھی تغیر و تبدل اس خطے کے سیاسی ماحول پر اثر انداز ہوگا۔

مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر میں ان دنوں دربار مو ہر خاص و عام کے لیے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

دربار کا تعلق کاروبار حکومت کے ساتھ ہے۔ شخصی دور میں جب جموں و کشمیر کو ملک کشمیر کہا جاتا تھا اور آزادی کے بعد جب اسے ریاست کا درجہ ملا تو کاروبار حکومت چلانے کیلئے دو شہروں جموں اور سرینگر کو دارالحکومت کا درجہ ملا۔

موسم گرما وارد ہوتے ہی دربار سرینگر میں لگتا ہے اور سردیوں کا آغاز ہوتے ہی حکمران اپنا بوریا بسترہ سمیٹ کر جموں منتقل ہوتے ہیں۔

دارالحکومت کے اسی ششماہی سفر کو دربار مو کہتے ہیں۔ یہ ایک روایت ہے جو دہائیوں سے بلا ناغہ چلی آرہی ہے۔

دربار مو موضوع بحث کیوں؟

گزشتہ سال اگست میں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا۔

اس وقت دربار سرینگر میں تھا اور پوری ریاست سخت ترین بندشوں کی زد میں لائی گئی لیکن ان بندشوں کے باوجود دربار مو اپنے وقت پر ہوا اور تمام اعلیٰ دفاتر جموں منتقل کئے گئے۔

لیکن جموں سے دفاتر کی واپس منتقلی اب موضوع بحث بن گئی ہے۔ حکام کہتے ہیں کہ دفاتر کی منتقلی میں تاخیر ہوگی کیونکہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں دربار کے لاؤ ولشکر کو منتقل کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

سول سیکرٹریٹ جموں و کشمیر
سول سیکرٹریٹ جموں و کشمیر

گذشتہ 148 سالوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے دربار مو میں دیری کی جارہی ہے۔

یہ معاملہ اب ہائیکورٹ پہنچ گیا جہاں ایک ڈویذن بینچ نے انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ یہ دیکھیں کہ آیا دربار مو کی روایت برقرار رکھنا فائدہ مند ہے یا نہیں۔

جموں و کشمیر میں دربار مو کب سے شروع ہوا، اس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

دربار مو یعنی دارالحکومت کی منتقلی کی روایت ڈوگرا راج کے دوران ہوئی، اس وقت مہاراجہ رنبیر سنگھ نے سنہ 1872 میں جموں و کشمیر کیلئے دو دارلحکومتوں کا اعلان کیا۔

یہ کہا جارہا ہے کہ دربار مو جموں و کشمیر کے دو متنوع لسانی اور ثقافتی علاقوں کے مابین جذباتی اتحاد کا آئینہ دار ہے۔

مہاراجہ رنبیر سنگھ
مہاراجہ رنبیر سنگھ

موجودہ وقت میں دربار مو کے دوران قریب 10 ہزار ملازمین جموں سے سرینگر اور بعد میں سرینگر سے جموں منتقل ہوجاتے ہیں۔

جموں و کشمیر میں دربار مو کے دوران الگ ہی رونقیں ہوتی ہیں، لوگوں کا ماننا ہے کہ جب دارالحکومت کی منتقلی کا وقت قریب آنے لگتا ہے تو حکومت سڑکوں، گلیوں و عمارتوں کی تزئین کاری شروع کرتی ہے۔

دربار کے ساتھ حکومت کا سارا ریکارڈ بھی منتقل ہوتا ہے۔ دفتروں میں پڑی ساری فائلوں کو سمیٹ کر صندوقوں میں مہر بند کیا جاتا ہے اور بعد میں ٹرکوں میں لاد کر ایک شہر سے دوسرے شہر روانہ کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ صرف سرکاری ریکارڈ اور ملازمین کی منتقلی نہیں ہوئی بلکہ ملازمین کے کنبے اور کاروبار حکومت سے منسلک دیگر ہزاروں افراد بھی اس قافلے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

دارالحکومت کی منتقلی کے وقت
دارالحکومت کی منتقلی کے وقت

حکومت کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کی منتقلی میں سالانہ 200 کروڑ سے زیادہ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

شاید یہی شہ خرچی ہے جس کا نوٹس عدالت عالیہ نے لیا ہے اور موجودہ سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں، زمانہ قدیم کی اس روایت کو برقرار رکھنے پر سوال اٹھایا ہے۔

ہائیکورٹ کی چیف جسٹس گیتا متل کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتطامیہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ دربار کے حوالے سے حتمی فیصلہ لیں کہ آیا اس روایت کو برقرار رکھنا لازمی ہے یا نہیں۔

عدالت نے اعتراف کیا ہے کہ حتمی فیصلہ لینا انکے حد اختیار میں نہیں چنانچہ عدالت نے یہ معاملہ وزارت داخلہ کے سیکریٹری اور مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے چیف سیکیٹری کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔

عدالت کے 93 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ڈویژن بینچ نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اس وقت کے مہاراجا نے سنہ 1872 میں جو روایت شروع کی، اسے آج بھی برقرار رکھنا ضروری ہے یا نہیں؟

کورٹ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے موسم کو دیکھتے ہوئے اس وقت مہاراجہ رنبیر سنگھ نے دو دارالحکومتوں کو تشکیل دیا تھا، لیکن آج ہم موسم کو کنٹرول کرنے والی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنا کام کر سکتے ہیں۔

جموں و کشمیر ہائی کورٹ
جموں و کشمیر ہائی کورٹ

کورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ روایت شروع ہوئی تھی تب اس میں کچھ افسران اور تھوڑا بہت سامان ایک دارلحکومت سے دوسرے میں منتقل ہوتا تھا الیکن اب دربار میں 151 دفاتر، 10 ہزار ملازمین، سامان سے لدے ہوئے ہزاروں ٹرکس کو ایک سے دوسرے دارالحکومت میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اور اس کام میں تقریباً 200 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ داخلہ امور کے مرکزی سکریٹری اور جموں و کشمیر کے چیف سکریٹری دربار مو پر کیا فیصلہ لیتے ہیں اور جموں و کشمیر کی دو دارالحکومتوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر دربار کو ایک ہی شہر میں ساکت کیا جائے گا تو دوسرے شہر یا خطے کے لوگوں کا ردعمل کیا ہوگا۔ دربار، جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے اور اس میں کوئی بھی تغیر و تبدل اس خطے کے سیاسی ماحول پر اثر انداز ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.