ETV Bharat / state

Article 370 Caseآرٹیکل 370 معاملہ، کپل سبل نے سپریم کورٹ میں اپنے دلائل سے بحث کا آغاز کیا

سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر یومیہ بنیادوں پر سماعت ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ بدھ سے روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سوریا کانت بھی شامل ہیں۔

author img

By

Published : Aug 2, 2023, 1:27 PM IST

Article 370 Issue
Article 370 Issue

نئی دہلی: سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر آج سماعت ہوئی۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف سینئر وکیل اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے بحث کا آغاز کیا۔ انہیں اپنے دلائل دینے کے لیے 10 گھنٹے کا وقفہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کا دیگر ریاستوں کے برعکس ایک مخصوص انتظام کے تحت یونین آف انڈیا کے ساتھ الحاق کیا گیا تھا اور الحاق کے دستاویز کے مطابق بعض خاص محکموں جیسے دفاع اور مواصلات کے بغیر ریاست کو اپنے قوانین بنانے کا اختیار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مفروضہ غلط ہے کہ آئین کی دفعہ 370 عارضی تھی بلکہ اس دفعہ کا اطلاق اس طریقے سے کیا گیا تھا کہ اس کی ہیئت ایک مستقل دفعہ کی سی ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لیے یہ شرط عائد کی گئی کہ ملک کا کوئی بھی قانون تب تک وہاں پر لاگو نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہاں کی اسمبلی اس کی توثیق نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا آئین، اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ یہ خطہ بھارت کا حصہ ہے۔ اس لیے دفعہ 370 کی موجودگی سے اس رشتے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کپل سبل نے تاریخ وار بتایا کہ کس طرح جموں و کشمیر اور بھارت کے درمیان تعلق استوار کرنے کے لیے مختلف صدارتی فرمان جاری کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یونین آف انڈیا کو اختیار ہے کہ وہ آئین کی کسی دفعہ میں ترمیم کرے لیکن اس کے لیے اہم ترین شرط یہ ہے کہ جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی توثیق ہو۔ ان کے مطابق آئین ساز اسمبلی 1951 سے 1957 تک موجود تھی اور اس دوران اس دفعہ کو ختم کرنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ اب چونکہ آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے اور اس کی توثیق حاصل نہیں کی جاسکتی، اس لیے پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اس دفعہ کو ختم کرے یا اس میں ترمیم کرے۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے بی جے پی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی آئین کی سمجھ یہ ہے کہ انہوں نے آئینی تحفظ ہونے کے باوجود اس دفعہ میں ترمیم کی۔ انہوں نے کہا کہ دن کے گیارہ بجے (5 اگست 2019) یہ ترمیم کی گئی جس کے بارے میں کسی کو کوئی بھنک بھی نہیں تھی۔ کپل سبل کے دلائل کے دوران متعدد بار چیف جسٹس اور بنچ کے دیگر ارکان نے مداخلت کی اور سوالات پوچھے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔ بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سوریا کانت بھی شامل ہیں۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر آج سماعت ہوئی۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف سینئر وکیل اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے بحث کا آغاز کیا۔ انہیں اپنے دلائل دینے کے لیے 10 گھنٹے کا وقفہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کا دیگر ریاستوں کے برعکس ایک مخصوص انتظام کے تحت یونین آف انڈیا کے ساتھ الحاق کیا گیا تھا اور الحاق کے دستاویز کے مطابق بعض خاص محکموں جیسے دفاع اور مواصلات کے بغیر ریاست کو اپنے قوانین بنانے کا اختیار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مفروضہ غلط ہے کہ آئین کی دفعہ 370 عارضی تھی بلکہ اس دفعہ کا اطلاق اس طریقے سے کیا گیا تھا کہ اس کی ہیئت ایک مستقل دفعہ کی سی ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لیے یہ شرط عائد کی گئی کہ ملک کا کوئی بھی قانون تب تک وہاں پر لاگو نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہاں کی اسمبلی اس کی توثیق نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا آئین، اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ یہ خطہ بھارت کا حصہ ہے۔ اس لیے دفعہ 370 کی موجودگی سے اس رشتے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کپل سبل نے تاریخ وار بتایا کہ کس طرح جموں و کشمیر اور بھارت کے درمیان تعلق استوار کرنے کے لیے مختلف صدارتی فرمان جاری کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یونین آف انڈیا کو اختیار ہے کہ وہ آئین کی کسی دفعہ میں ترمیم کرے لیکن اس کے لیے اہم ترین شرط یہ ہے کہ جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی توثیق ہو۔ ان کے مطابق آئین ساز اسمبلی 1951 سے 1957 تک موجود تھی اور اس دوران اس دفعہ کو ختم کرنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ اب چونکہ آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے اور اس کی توثیق حاصل نہیں کی جاسکتی، اس لیے پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اس دفعہ کو ختم کرے یا اس میں ترمیم کرے۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے بی جے پی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی آئین کی سمجھ یہ ہے کہ انہوں نے آئینی تحفظ ہونے کے باوجود اس دفعہ میں ترمیم کی۔ انہوں نے کہا کہ دن کے گیارہ بجے (5 اگست 2019) یہ ترمیم کی گئی جس کے بارے میں کسی کو کوئی بھنک بھی نہیں تھی۔ کپل سبل کے دلائل کے دوران متعدد بار چیف جسٹس اور بنچ کے دیگر ارکان نے مداخلت کی اور سوالات پوچھے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔ بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سوریا کانت بھی شامل ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.