بھارت میں صحافیوں کی اعلٰی تنظیم 'ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا‘ نے تمام مدیروں اور صحافیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے مختلف علاقوں میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کی رپورٹنگ کرتے وقت انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں اور پیشہ ورانہ معیارات پر عمل پیرا ہوں۔ گلڈ کی صدر سیما مصطفیٰ، جنرل سیکرٹری سنجے کپور اور خازن اننتھ ناتھ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ’اگرچہ تنظیم کو اس بات کا ادراک ہے فسادات میں گراونڈ زیروں پر رپورٹنگ کرنے میں کن خطرات سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن دو طبقات کے درمیان ہوئی جھڑپوں کی رپوٹنگ کرتے وقت رپورٹرز کی جانب صے صحافتی آداب و اقتدار کا خیال نہیں رکھا جانا انتہائی مایوس کن ہے‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’سب سے پہلے خبر نشر کرنے اور سامعین کو اپنی جانب راغب کرنے کی دوڑ میں ایڈیٹرز اور رپورٹرز حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور ازخود نتیجہ اخز کرکے ایک کمیونٹی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اس دوڑ میں زمینی حقائق کا پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا جبکہ اس صورتحال کے دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد واقعات کی طویل تاریخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر واقعات میں جو نظر آتا ہے ویسا اصل میں نہیں ہوتا۔ اس طرح کے واقعات میں سیاست دانوں، پولیس اہلکاروں اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی تنظیموں کے ملوث ہونے کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
لہٰذا، ایسے حالات میں ایڈیٹرز کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے تجربہ اور نقطہ نظر کو نیوز رومز میں بروئے کار لاتے ہوئے خبروں کو پیش کریں۔ گلڈ کا خیال ہے کہ ہر صحافی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ انصاف پسندی اور غیرجانبداری سے کام لے تاہم پولرائزیشن کے کھیل میں خود کو پیادہ نہ بنائے۔ پیشہ صحافت کی کئی اہم ذمہ داریاں اور عظیم مقاصد ہوتے ہیں۔ افواہوں کو ہوا نہ دیتے ہوئے سماج میں امن و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیں اور تعصب سے بالاتر ہونا چاہئے۔ ایک شہری کو دوسرے شہری کے خلاف نہ بھڑکانا ہی صحافی کی اصل منصبی ذمہ داری ہے۔