نئی دہلی: اردو کی پیدائش بھارت کی دیگر زبانوں کے میل جول سے ہوئی۔ اس کے لغوی معنی لشکر کے ہیں سنہ 1637ء کے بعد جو لشکر دہلی کے لال قلعہ کے اطراف میں مقیم ہوا، وہی اس کی جائے پیدائش کہلایا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو لشکر کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اس زبان نے مغلیہ دور حکومت میں عروج دیکھا لیکن جب بھارت تقسیم ہوا تو وہیں سے اردو زبان کا بھارت میں زوال شروع ہوگیا اور اب یہ زبان مظلوم بن کر رہ گئی ہے۔
حالانکہ ایک بڑی تعداد اردو زبان کو آج بھی بہت پنسد کرتی ہے لیکن اس کا رسم الخط اس زبان کا دشمن بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ اردو زبان کو بھارت سے ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر معروف اردو مصنفین کی بات مانیں تو اردو کا سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں۔ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ سرکار کی بے رخی اور اردو والوں کی بے توجہی نے اس زبان کو آج مظلوم بنا دیا ہے۔ ان کے مطابق زبانیں سرکاروں کی سرپرستی میں زندہ نہیں رہتی بلکہ اس کے بولنے والوں کے بل پر زندہ رہتی ہیں۔
وہیں پروفیسر شہپر رسول کا کہنا ہے کہ زبانیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہے اور اردو عوام کی زبان ہے اور جس ملک کی عوام وہاں کی زبان بولتے ہوں وہ کبھی ختم نہیں ہوتی اور اردو بولنے والے تو دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں ایسے میں اردو ختم ہونے کی بات کرنا درست نہیں ہے۔ جب کہ کانگریس کے ترجمان اور سینیئر صحافی میم افضل کے مطابق اردو کو ختم کرنے میں بیروکریسی کا اہم کردار رہا ہے۔ گزشتہ 8 برسوں کے درمیان اردو کے اساتذہ کی کمی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں آج اردو میڈیم اسکولوں کا نام و نشان نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: AIMPLB احتجاجی جلسوں اور شور و ہنگامہ سے گریز کریں: مولانا محمد فضل الرحیم مجددی
معروف صحافی معصوم مراد آبادی نے کہا کہ آج اس ملک کے اندر اردو کی جو صورتحال ہے اس پر جو بیت رہی ہے وہ بڑی تکلیف دہ ہے۔ اردو دن بدن سمٹتی جا رہی ہے اور وہ سمٹ کر کے ایک ایسی جگہ پہنچ رہی ہے جہاں اس کے ختم ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں یہ بات صحیح ہے کہ اردو کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایک زندہ زبان ہے۔ اور زندہ زبانیں کبھی ختم نہیں ہوتی۔