بڈگام: جموں و کشمیر میں سرکاری اراضی خصوصاً کاہچرائی اور روشنی لینڈ پر سے عوامی قبضہ کو ہٹا کر اراضی کو حکومتی تحویل میں واپس لینے کا سلسلہ گزشتہ کئی روز سے جاری ہے۔ انہدامی کارروائی کے دوران انتظامیہ پر اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی پردہ پوشی کرکے صرف غریبوں سے اراضی واپس لینے کے الزامات کے بیچ سرینگر کے مضافاتی علاقہ ہمہامہ میں مبینہ طور سرکاری اراضی پر تعمیر کیے گئے ایک ڈھانچہ کو منہدم کیا گیا جو، محکمہ مال کے مطابق، جموں و کشمیر کے سابق وزیر محمد علی ساگر کی زوجہ کے نام پر ریونیو ریکارڈز میں درج ہے۔
انہدامی کارروائی میں شامل اہلکاروں نے بتایا کہ انہوں نے بدھ کی دوپہر ایئرپورٹ روڈ، ہمہامہ میں واقع ایک عمارت، جو محکمہ مال کے مطابق سرکاری اراضی پر تعمیر کی گئی ہے، کی دیوار اور عمارت کو منہدم کر دیا۔ اہلکاروں نے بتایا کہ یہاں ایک اور رہائشی ڈھانچہ بھی قائم کیا گیا ہے تاہم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا کیونکہ وہ، ان کے مطابق، ملکیتی اراضی پر تعمیر کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: Altaf Bukhari on Land Encroachment ایک انچ زمین باہر والوں کو نہیں ہونے دیں گے، الطاف بخاری
اہلکاروں کا کہنا ہے کہ صرف سرکاری اراضی پر تعمیر کیے گئے ڈھانچے اور دیوار کو ہی منہدم کیا گیا اور ملکیتی اراضی پر تعمیر کئے گئے ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ ادھر، موقع پر موجود محمد علی ساگر کے ایک رشتہ دار نے دعویٰ کیا کہ انہدامی کارروائی سے قبل مکینوں کو کئی نوٹس ارسال نہیں کیا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا: ’’انہدامی کارروائی اُس وقت انجام دی گئی جب رہائشی مکان اور آفس میں کوئی موجود نہیں تھا۔‘‘
نیشنل کانفرنس کی جانب سے اس حوالہ سے جاری کیے گئے پریس نوٹ میں انہدامی کارروائی کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے ’’سیاسی انتقام گیری‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ این سی کا کہنا ہے کہ ’’انتظامیہ مشینری، حکومتی اداروں کا غلط استعمال کرکے مین اسٹریم جماعتوں کے حوصلے پست کرنا چاہتی ہے جس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔‘‘