ETV Bharat / state

کشمیر میں نایاب چاول کی کاشت متاثر کیوں؟

مرکز کے زیر انتظام علاقہ کشمیر کے کوکرناگ میں چاول کی اعلیٰ قسم 'مُشک بُدجی' کی کاشت کی جاتی ہے لیکن اس بار یہ کاشت بھی کافی متاثر ہوئی ہے جس کے لیے کسانوں نے وادی کے حالات کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

mushk budji rice
mushk budji rice
author img

By

Published : Jun 21, 2020, 5:22 PM IST

کچھ برس قبل وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں چاول کے لہلہاتے کھیت نظر آتے تھے اور یہاں کی اکثر آبادی اپنے لیے سال بھر استعمال ہونے والے چاول کی خود ہی کاشت کرتے تھے لیکن اب تقریباً 80 فیصد لوگوں نے ایگریکلچر اراضی کو ہارٹیکلچر میں تبدیل کیا ہے جس کی وجہ سے اب یہاں کی اکثر آبادی چاول کے لیے راشن کی قطاروں میں نظر آتی ہے۔

چاول کے کاشتکار، حالات سے پریشان، ویڈیو

سال 2011 میں اُس وقت کے وزیر زراعت غلام حسن میر نے کسانوں سے گزارش کی تھی کہ وہ اپنے کھیتوں میں 'مُشک بُدجی' نامی چاول کی کاشت کریں۔

مُشک بُدجی کی کاشت کے لیے کوکر ناگ کے ساگم علاقہ کے لوگوں نے پہل کی۔ مُشک بُدجی چاولوں کی اقسام میں بہترین چاول تصور کیاجاتا ہے جس کی کاشت صرف وادی کشمیر کے ساگم کوکر ناگ علاقے میں بڑی مقدار میں کی جاتی ہے۔

جون کے مہینے میں عام بیجوں کی طرح مُشک بُدجی کے بیج بھی بوئے جاتے ہیں اور ان بیجوں کو تیار ہونے میں 40 تا 45 دن لگتے ہیں اور اس کے بعد تیار شدہ پنیری کو زمین میں بویا جاتا ہے۔

پنیری کو تیار ہونے میں دو ماہ لگ جاتے ہیں اور ستمبر، اکتوبر کے مہینوں میں چاول کی کٹائی شروع کی جاتی ہے۔ کٹائی کے بعد اسے جھاڑنے کے بعد اچھی طرح سکھایا جاتا ہے اور بعد میں مشینوں کے ذریعے کوٹ کر چاول حاصل کیا جاتا ہے۔

مُشک بُدجی عام چاولوں کے مقابلے میں بہت مہنگا ہوتا ہے۔ جہاں عام چاولوں کی قیمت ایک ہزار سے پندرہ سو روپے فی کونٹل ہوتی ہے تو وہیں مُشک بُدجی دس ہزار روپے فی کوئنٹل فروخت کیا جاتا ہے۔

مُشک بُدجی کو متحد عرب امارات میں کافی پسند کیا جاتا ہے اور وہاں کے ہوٹلوں میں زیادہ تر یہی چاول استعمال کیا جاتا ہے۔

اگرچہ مُشک بُدجی کی کاشت کے ابتدائی دور میں کسانوں کو کافی منافع ہوا تاہم چند سالوں سے مقامی کسان کافی مایوس دکھائی دے رہے ہیں کیوںکہ اس شعبے سے وابستہ کسانوں کا وادی کے حالات کے درمیان مُشک بُدجی کا مارکٹ ویلیو کم ہو گیا ہے جس سے کسانوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔

ایک جانب جہاں محکمہ زراعت مقامی کسانوں کو اپنی جانب سے ہر قسم کی سہولیات پنہچانے میں پیش پیش رہا ہے تو وہیں کسانوں نے بھی اپنی لگن سے محکمہ کا بھرپور تعاون کرتے ہوئے نہ صرف محکمہ کا سر ریاستی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر فخر سے اونچا کیا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی یا مرکزی حکومت وادی کشمیر کی اس نایاب چیز کو بین الاقوامی سطح پر لے جا کر کسانوں کو معقول رقومات فراہم کرانے میں پیش قدمی کریں تاکہ یہاں کے زیادہ سے زیادہ لوگ اس شعبے کی جانب راغب ہوجائیں۔

کچھ برس قبل وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں چاول کے لہلہاتے کھیت نظر آتے تھے اور یہاں کی اکثر آبادی اپنے لیے سال بھر استعمال ہونے والے چاول کی خود ہی کاشت کرتے تھے لیکن اب تقریباً 80 فیصد لوگوں نے ایگریکلچر اراضی کو ہارٹیکلچر میں تبدیل کیا ہے جس کی وجہ سے اب یہاں کی اکثر آبادی چاول کے لیے راشن کی قطاروں میں نظر آتی ہے۔

چاول کے کاشتکار، حالات سے پریشان، ویڈیو

سال 2011 میں اُس وقت کے وزیر زراعت غلام حسن میر نے کسانوں سے گزارش کی تھی کہ وہ اپنے کھیتوں میں 'مُشک بُدجی' نامی چاول کی کاشت کریں۔

مُشک بُدجی کی کاشت کے لیے کوکر ناگ کے ساگم علاقہ کے لوگوں نے پہل کی۔ مُشک بُدجی چاولوں کی اقسام میں بہترین چاول تصور کیاجاتا ہے جس کی کاشت صرف وادی کشمیر کے ساگم کوکر ناگ علاقے میں بڑی مقدار میں کی جاتی ہے۔

جون کے مہینے میں عام بیجوں کی طرح مُشک بُدجی کے بیج بھی بوئے جاتے ہیں اور ان بیجوں کو تیار ہونے میں 40 تا 45 دن لگتے ہیں اور اس کے بعد تیار شدہ پنیری کو زمین میں بویا جاتا ہے۔

پنیری کو تیار ہونے میں دو ماہ لگ جاتے ہیں اور ستمبر، اکتوبر کے مہینوں میں چاول کی کٹائی شروع کی جاتی ہے۔ کٹائی کے بعد اسے جھاڑنے کے بعد اچھی طرح سکھایا جاتا ہے اور بعد میں مشینوں کے ذریعے کوٹ کر چاول حاصل کیا جاتا ہے۔

مُشک بُدجی عام چاولوں کے مقابلے میں بہت مہنگا ہوتا ہے۔ جہاں عام چاولوں کی قیمت ایک ہزار سے پندرہ سو روپے فی کونٹل ہوتی ہے تو وہیں مُشک بُدجی دس ہزار روپے فی کوئنٹل فروخت کیا جاتا ہے۔

مُشک بُدجی کو متحد عرب امارات میں کافی پسند کیا جاتا ہے اور وہاں کے ہوٹلوں میں زیادہ تر یہی چاول استعمال کیا جاتا ہے۔

اگرچہ مُشک بُدجی کی کاشت کے ابتدائی دور میں کسانوں کو کافی منافع ہوا تاہم چند سالوں سے مقامی کسان کافی مایوس دکھائی دے رہے ہیں کیوںکہ اس شعبے سے وابستہ کسانوں کا وادی کے حالات کے درمیان مُشک بُدجی کا مارکٹ ویلیو کم ہو گیا ہے جس سے کسانوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔

ایک جانب جہاں محکمہ زراعت مقامی کسانوں کو اپنی جانب سے ہر قسم کی سہولیات پنہچانے میں پیش پیش رہا ہے تو وہیں کسانوں نے بھی اپنی لگن سے محکمہ کا بھرپور تعاون کرتے ہوئے نہ صرف محکمہ کا سر ریاستی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر فخر سے اونچا کیا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی یا مرکزی حکومت وادی کشمیر کی اس نایاب چیز کو بین الاقوامی سطح پر لے جا کر کسانوں کو معقول رقومات فراہم کرانے میں پیش قدمی کریں تاکہ یہاں کے زیادہ سے زیادہ لوگ اس شعبے کی جانب راغب ہوجائیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.