اننت ناگ: سرینگر کے درگاہ حضرت بل علاقے سے تعلق رکھنے والی 55 سالہ جمیلہ بیگم جنوبی کشمیر کے اننت ناگ قصبے میں گزشتہ 33 برسوں سے مچھلیاں فروخت کر رہی ہیں۔عرصہ دراز سے مچھلیاں فروخت کرنے اور خریداروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی وجہ سے اننت ناگ کے لوگ اسے پیار سے "جمیل ماسی" کے نام سے پکارتے ہیں۔Fisherwomen Of Anantnag
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے جمیلہ بیگم نے کہا کہ وہ اننت ناگ قصبے میں گزشتہ 33 برسوں سے مچھلی فروخت کر رہی ہیں۔جمیلہ جوانی سے ہی بہادر اور محنتی تھیں۔ انہوں نہ صرف یہاں بلکہ خطہ لداخ خطہ چناب کے کئی علاقوں سمیت گریز میں بھی مچھلیاں فروخت کی ہیں۔ شادی ہونے کے بعد انہوں نے اُن جگہوں پر جانا چھوڑ دیا، جس کے بعد جمیلہ نے اننت ناگ کے بس اسٹینڈ کے متصل ایک پُل کی پٹری پر مچھلیاں فروخت کرنا شروع کی۔ Fish market in Anantnag
تاہم ان کا کہنا ہے کہ روزی روٹی کمانے کی اس جدو جہد میں اننت ناگ ان کی سب سے پسندیدہ جگہ رہی ہے۔ وہ علی الصبح سرینگر سے روانہ ہوتی ہیں اور طویل سفر طے کرکے تازہ مچھلیاں لے کر اننت ناگ پہنچ جاتی ہے اور شام کو سرینگر واپس لوٹ جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے وہ کبھی بھی اپنے کاروبار سے سمجھوتہ نہیں کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تازہ مچھلیاں فروخت کرنے اور معقول قیمت کی وجہ سے وہ قصبہ اننت ناگ میں مقبول ہیں۔ Fresh Fishes In Anantnag
مزید پڑھیں: Fisherwomen Of Kashmir مچھلی فروخت کرنے والی ماہی گیر خواتین کی حالت زار
جمیلہ کا کہنا ہے کہ رواں برس کاشتکاروں کو سیب کی معقول قیمتیں نہ ملنے کہ وجہ سے ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے، کیونکہ لوگ مالی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں، لہذا وہ پیسے بچانے کی خاطر مچھلیاں کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں سردیوں کے سیزن میں لوگ مچھلیاں کھانا زیادہ پسند کرتے تھے، تاہم مالی مشکلات کی وجہ سے مچھلیوں کی خریداری نہ ہونے کے برابر ہے۔Fish Business Dip This Winter
جمیلہ نے کہا کہ سرکار کی جانب سے ان کے طبقہ کو نظر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سرکار سے ان کی بازآبادکاری کے لئے اقدامات اٹھانے کی اپیل کی۔Rehablitation Of Fisherwomen in Kashmir