کوپین ہیگن: کورونا وائرس کے بعد بہت تیزی وبا کی شکل اختیار کرنے والی بیماری منکی پوکس Monkeypox کو کنٹرول کرنے کے لئے یورپی ملک ڈنمارک کی بائیوٹیکنالوجی کمپنی ’بائیو نارڈوک‘ نے خصوصی ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جسے یورپین یونین (ای یو) نے استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ’بائیو نارڈوک‘ نے کچھ عرصہ قبل ہی (Imvanex) ’اموانیکس‘ نامی ویکسین تیار کی تھی، جسے ابتدائی طور پر امریکا اور کینیڈا کی حکومتوں نے استعمال کی اجازت دی تھی۔
ذرائع کے مطابق امریکی ممالک کے بعد یورپین یونین کی ہیلتھ ایجنسی نے بھی اسے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، جس کے بعد 26 جولائی کو یورپین یونین نے اس کے ہنگامی استعمال کی اجازت دی۔ کمپنی نے تصدیق کی ہے کہ یونین کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ویکسین کے ڈوز تمام یورپی ممالک کو فراہم کیے جائیں گے جب کہ پہلے ہی امریکہ اور کینیڈا کو اس کے ڈوز فراہم کیے جا چکے ہیں۔
یورپین یونین کی جانب سے منظوری سے قبل ہی مذکورہ ویکسین کو متعدد یورپی ممالک میں تقسیم کیا گیا تھا اور اسے منکی پاکس سمیت سمال پوکس کے مریضوں پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ یورپین یونین نے مذکورہ ویکسین کو استعمال کی اجازت ایک ایسے وقت میں دی ہے جب کہ حال ہی میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے منکی پوکس کے پیش نظر عالمی سطح پر صحت کی ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: WHO on Monkeypox: منکی پوکس عالمی ایمرجنسی، ڈبلیو ایچ او
عالمی ادارہ صحت نے 24 جولائی کو ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا تھا اور یورپین یونین نے 26 جولائی کو ویکسین کے استعمال کی اجازت دی۔ ’اموانیکس‘ اب تک کی واحد ویکسین ہے، جسے خصوصی طور پر منکی پوکس اور اس سے ملتی جلتی بیماریوں کے لیے تیار کیا گیا ہے، تاہم اس سے قبل بھی اس بیماری کے لیے دیگر ویکسینز استعمال کی جا رہی تھیں۔ منکی پوکس کے علاج کے لیے اب تک ماہرین خارش سمیت چکن پوکس کے علاج میں استعمال ہونے والی ویکسین کا استعمال کر رہے تھے۔
ماہرین کے مطابق عام طور پر منکی پوکس کے مریض 4 سے 6 ہفتوں میں صحت یاب ہو جاتے ہیں، تاہم بعض مریضوں میں بیماری کئی ماہ تک چل سکتی ہے۔ مذکورہ بیماری اگرچہ براعظم افریقہ میں عام وبا کی صورت میں پائی جاتی تھی، تاہم رواں برس مئی سے یورپ اور امریکہ سمیت ایشیائی ممالک میں پائی جانے والی بیماری مختلف ہے، جو صرف قریبی جسمانی روابط یا پھر مریض کے استعمال شدہ کپڑوں پر لگے خون اور دیگر گندگی سے دوسرے شخص کو متاثر کر سکتی ہے۔ (یو این آئی)