اپنے ہنر اور قابلیت کے دم پر لوگ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں ۔ وہیں چند افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے ملک کا پرچم بلند کرتے ہیں تاہم خود نہ کبھی منظر عام پر آتے ہیں اور نہ ہی مقبول ہوتے ہیں۔ایسے ہی ایک مثال ہے 38 برس کے ظہور احمد لٹو کی ۔
ظہور احمد سرینگر کے جھیل ڈل کے رہنے والے ہیں اور ابھی تک بھارت اور جموں و کشمیر کے لیے مختلف واٹر اسپورٹس کھیلوں میں 80 سے زائد میڈل جیت لئے ہیں۔
اُن کی شاندار کارکردگی کے لیے اُن کو شیر کشمیر ایوارڈ اور اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازہ بھی گیا ہے۔ جس کے بعد جموں و کشمیر پولیس میں نوکری بھی ملی اور اس وقت بطور ہیڈ کانسٹیبل کام کر رہیں ہیں۔
اس سب کے باوجود ظہور احمد کو حکومت کی جانب سے وہ مقام حاصل نہیں ہوا جس کے وہ حقیقت میں حق دار ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ "پہلے میں تیراکی کا مقابلوں میں حصہ لیا کرتا تھا۔ پھر سنہ 1998 میں جھیل ڈل میں کیکنگ اور کینوئنگ کا عالمی مقابلہ منقعد کیا گیا۔ جس سے وہ کافی متاثر ہوا اور اس کھیل کو اپنا لیا۔
ظہور احمد کا کہنا ہے کہ سنہ 2019 تک انہوں نے 80 سے زائد میڈل جیت لیے ہیں جن میں انٹرنیشنل میڈل بھی شامل ہیں۔
ان کے مطابق اگرچہ پولیس کی جانب سے انہیں حوصلہ افزائی کی گئی اور نوکری فراہم کی گئی تاہم ایسوسیشن اور انتظامیہ کی جانب سے کچھ خاص مدد نہیں ملا ہیں۔
مزید پرھیں:
ان کا کہنا ہے کہ انہیں سٹیٹ میڈل سنہ 2015 میں ملنا چاہیے تھا تاہم یہ میڈل انہیں سنہ 2018 میں ملا۔
ظہور احمد کا کہنا ہے کہ "واٹر اسپورٹس ایسوسیشن کے پاس کچھ تھا ہی نہیں تو انہیں کیا دیتے وہ؟
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں سنہ 1998 میں کھلاڑیوں کے لیے ایس ار او 349 کو تشکیل دیا گیا تاہم سنہ 2014 سے کورٹ کیس کی وجہ سے وہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔
ظہور احمد کے مطابق کھیل سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ کوچنگ کرنا چاہتے لیکن ایسوایشن میں پالیسی واضع نہیں ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ انہوں نے دسویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کی ہے تاہم تعلیمی قالفیکیشن کم ہونے کی وجہ سے انہیں کوچنگ کورس میں داخلہ نہیں ہوسکتا ہے۔
ظہور احمد کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے سپورٹس کونسل کے ڈائریکٹر کو بھی خط لکھا ہے اور حال ہی میں یہاں آئے پارلیمانی وفد سے بھی ملاقات کی ہے۔
ان کے مطابق انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ بین الاقوامی مقابلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑوں میں کوچنگ کورسس میں رعایت دی جائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:
اپنے پریکٹس کے شیڈول کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ وہ صبح اور شام دو گھنٹے پریکٹس کرتے ہیں۔ ڈوٹی پر نہیں جانا پڑتا ہے لیکن جب ہنگامی صورتِحال ہوتی ہے تب تو لازمی ہے۔
ظہور احمد کا کہنا ہے کہ اس کھیل کا سامان کافی مہنگا آتا ہے اور اس کھیل کو اپنانے سے پہلے آپ کو تیرنے میں مہارت ہونی چاہیے کیوں کہ یہ ناؤ کبھی بھی ڈوب سکتی ہے۔