پانچ اگست 2019 کو جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کردیا گیا اور ریاستی درجے کے خاتمے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔
وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی والی بی جے پی حکومت کی جانب سے جموں وکشمیر کو ریاستی درجے سے ہٹا کر یوٹی میں ضم کئے جانے کے اس تاریخی فیصلے کے دو برس مکمل ہوچکے ہیں۔دفعہ 370 کی منسوخی کے اعلان سے قبل ہی یہاں کے مین اسٹریم جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں کے علاوہ دیگر قائدین کو بھی یا تو جیلوں میں بند رکھا گیا، یا تو انہیں گھروں میں ہی نظر بند کیاگیا۔
حکومت نے کئی طرح کی بندشیں اور قدغنیں عائد کر کے سیاسی سرگرمیوں کو مسدود کر دیا تھا، جبکہ عوامی مزاحمت کو روکنے کے لیے کئی سخت گیر اقدامات اٹھائے۔ جن میں مکمل مواصلاتی لاک ڈؤان بھی شامل ہے۔گزشتہ دو برس کے دوران اگرچہ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے سبھی رہنماؤں کو رہا کیا گیا لیکن میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق سمیت اکثر علیحدگی پسند رہنما ابھی بھی یا تو قید ہیں، یا انہیں طویل عرصے سے گھروں میں ہی نظر بند رکھا گیا ہے۔
تقریبا 7 ماہ تک جموں وکشمیر میں سیاسی سرگرمیاں جمود کا شکار رہیں۔ تاہم گزشتہ برس ڈی ڈی سی انتحابات کے انعقاد کے ساتھ ہی یہاں سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔
رواں برس جون میں جموں وکشمیر کے تعلق سے اس وقت ایک بار پھر سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ جب وزیر اعظم نریندر مودی نے جون 24 کو جموں و کشمیر کی مین اسٹریم جماعتوں کا کُل جماعتی اجلاس نئی دہلی میں طلب کیا۔ جس میں یہاں کے سبھی مین اسٹریم جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی۔
مرکزی حکومت نے یہ اجلاس جموں وکشمیر میں جمہوری عمل کو پھر سے بحال کرنے کی سمت بلایا تھا اور اجلاس میں تنطیم نو کے تحت اسمبلی حلقوں کی نئے سرے سے حد بندی کے بعد اسمبلی انتخابات کرانے کی باتیں زیر غور لائی گئیں۔ بی جے پی کو چھوڑ یہاں کی مین اسٹریم جماعتیں دفعہ 370 کی منسوخی کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دے کر 5 اگست کو کالے دن کے طور پریاد کرتے ہیں۔
عام لوگ بھی اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرکز نے جموں وکشمیر اور لداخ کے جس معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے نام پر دو حصے کیے۔ دو برس کا عرصے گزرجانے کے بعد وہ ترقی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی وہ نیا کشمیر کہیں پر نظرآرہا ہے۔
خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد پابندیوں اور بندشوں کے بیچ جہاں ہر ایک شعبہ بری طرح اثر انداز ہوا۔ وہیں یہاں کے تجارتی شعبے کو بھی نا تلافی نقصان سے دور چار ہونا پڑا ہے۔ 5 اگست 2019 کے بعد کم وبیش 13ماہ تک مجموعی طور پر تجارتی سرگرمیاں بند رہیں۔ پھر رہی سہی کسر 2020 کے کورونا لاک ڈاؤان کے نذر ہو گئیں اور اب 2021 میں نئے سرے سے کئی مہینوں تک جاری رہے لاک ڈاؤن نے یہاں کی معیشت کو مزید تر پیچھے ڈھکیل دیا۔
گزشتہ 2 برس سےکشمیر وادی کی معیشت کو کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ تجارت سے منسلک افراد ابتر صورتحال سے گزر رہے ہیں خواہ وہ دکاندار ہوں، صنعت وحرفت، تعلیم یا سیاحت سے وابستہ افراد ہوں، زراعت، باغبانی، ہوٹل، ریستوران یا ہاؤس بوٹ صنعت سے جڑے افراد ہوں۔
مزید پڑھیں: چار اگست 2019 کی وہ یادیں جو آج بھی تازہ ہیں
کشمیری اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ 5 اگست 2019 کے بعد سخت ترین بندشوں اور پابندیوں کے 7 ماہ بعد یکم مارچ 2020 کو وادی کشمیر میں اسکول کھول دیے گئے۔ طلبہ نے ابھی اسکولوں میں پڑھائی کے چند ہفتے بھی نہیں گزارے تھے کہ عالمی وبا کورونا وائرس نے جموں و کشمیر میں دستک دے دیا۔ اس کے بعد تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کی معیاد میں رواں برس مارچ سے صرف توسیع ہی کی جارہی ہے۔
جموں وکشمیر میں تیس سالہ مسلح شورش کے دوران یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب وادی کے لاکھوں طلبہ و طالبات گزشتہ دو برس سے اسکول، کالج یا یونیورسٹی نہیں جاسکے ہیں۔ وادی کشمیر میں تعلیمی نظام کی ابتر صورتحال کو دیکھتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ 2019 سے کشمیر کو ملا تو کچھ نہیں لیکن نا تلافی نقصان کا سامنا ضرور ہے۔
جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد تنظیم نو قانون 2019 کو نافذ کیا گیا ہے، جس کی رو سے مرکزی حکومت کے وضع کردہ قوانین کا اطلاق عمل میں لایا گیا ہے۔