عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر جہاں متعدد تجارتی مراکز متاثر ہوئے وہیں کچھ نئے مراکز وجود میں بھی آئے ہیں۔ وادیٔ کشمیر میں اس وقت محکمۂ فیشریز کی جانب سے ٹراؤٹ مچھلی کے پالنے اور فروخت کرنے کے لیے اسکیم اور سبسڈی دی جا رہی ہے۔ Trout on Wheels in Srinagar
اسی اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرینگر کے رہنے والے عقیب مشتاق نے اپنے والد اور چاچا کی رہنمائی میں ٹراؤٹ مچھلی کی تجارت سنہ 2020 میں شروع کی اور آج وہ شہر کے مختلف علاقوں میں زندہ مچھلی فروخت کرتے ہیں۔ mobile shop selling trout live fish in Srinagar
ماسٹر اِن بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد عقیب نے روزگار تلاش کرنے کے بجائے روزگار فراہم کرنے کو اہم سمجھا اور پھر اس راہ پر چلنے کے لیے اپنے والد مشتاق احمد اور چاچا اقبال احمد کی رہنمائی میں اپنے گھر میں ہی موجود فوارے کو ٹراؤٹ مچھلی پالنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔
اس کے علاوہ عقیب نے چند گاڑیاں بھی خریدیں جس میں مچھلیوں کو زندہ رکھنے کے لیے آکسیجن، برف اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔
عقیب مشتاق کا کہنا ہے کہ "ابتداء میں مچھلیاں جب فروخت کرنا شروع کیا تو منافع حاصل کرنے کے بجائے نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیونکہ وادی میں تازہ اور زندہ مچھلی کی ڈیمانڈ تھی۔ اس لیے زندہ مچھلی گھر گھر تک پہنچانے کا خیال ذہن میں آیا اور پھر یہ کام شروع کیا۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "گھر کے فوارے کو مچھلی تالاب میں تبدیل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پانی سرکولیشن میں رہتا ہے۔ آج کل آبی وسائل میں کافی کمی دیکھی گئی ہے، اس میں لگے فوارے کی مدد سے پانی صاف ہو جاتا ہے اور دوبارہ استعمال کے لائق بھی ہو جاتا ہے۔"
عقيب ہر روز وادی میں تقریباً 100 کلو گرام ٹراؤٹ مچھلی فروخت کرتے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے تقریباً 12 افراد کو روزگار بھی فراہم کیا ہوا ہے جب کہ عقیب اپنے کام سے کافی مطمئن بھی نظر آتے ہیں۔
- یہ بھی پڑھیں: ایشیاء کے سب سے بڑے ٹراؤٹ مچھلی فارم کو خطرہ
عقیب کا کہنا ہے کہ "گھر گھر زندہ مچھلی پہنچانے والے وہ وادی کے پہلے شخص ہیں اور وہ مستقبل میں فروزن فش (frozen fish) بھی شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ اس سلسلہ میں لوگوں کا رسپانس کافی اچھا ہے۔"
وہیں عقیب کے چاچا اقبال احمد کا کہنا ہے کہ وادی میں 6 قسم کی مچھلیاں آپ پکڑ کر کھا سکتے ہو۔ ٹراؤٹ دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک رینبو اور دوسری براؤن۔ براؤن پر ابھی کام چل رہا ہے لیکن میرا خواب ہے کہ یہاں کے آبشار اور جھیلوں میں بھی مچھلی پکڑنے اور چھوڑنے کا سسٹم شروع کیا جائے۔ اس سے ماہی گیری کو کافی فائدہ ہوگا۔