کشمیر وادی میں چند ہفتوں سے تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں مل رہا ہے۔ کشمیر میں ٹارگیٹ کلنگ کی نئی لہر نے یہاں کام کررہے ہیں دیگر ریاستوں کے افراد میں خوف پیدا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اگرچہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ مزدور بھاگ گئے جو چند ماہ کی خاطر یہاں کام کرنے کے لیے آیا کرتے ہیں لیکن بہار، اترپردیش، اترا کھنڈ، جارکھنڈ اور دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے دہائیوں سے مقیم یہ حلوائی، پکوڑے والے اور ریڈی پر چائیے، بریانی اور دیگر چیزیں فروخت کرنے والے بنا کسی ڈر اور پریشانی کے اپنے کام میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔
زیارت گاہوں، خانقاہوں اور دیگر مذہبی مقامات کے قریب برسوں سے اس طرح سے اسٹال لگائے یہ حلوائی بغیر کسی خوف وخطر کے بہتر طور اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ ہمارے ساتھ اپنوں کی طرح پیش آتے ہیں اور آج تک ہمیں کسی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے، یہاں تک کہ لاک ڈاون کے دوران مقامی باشندوں نے ہی مدد کی تھی۔
رواں ماہ اب تک ٹارگٹ کلنگ میں اقلیتی طبقے سے وابستہ 8 افراد ہلاک کئے گئے ہیں جن میں سے 5 غیر مقامی لوگ بھی ہیں جو کہ یہاں روزگار کمانے کے لیے الگ الگ کام انجام دے رہے تھے۔ چھاپڑی فروش کے علاوہ پانی پوری فروخت کرنے والا، ترکھان اور مزدور بھی شامل ہیں۔
موسم گرما میں ریڈی پر جوس وغیرہ اور سردیوں میں سنگھاڑے اور مونگ پھلی وغیر فروخت کرنے والے جارکھنڈ کے منوج گپتا کہتے ہیں کہ میں یہاں 13 برس سے کام کررہا ہوں، ایسے میں کشمیر کے مختلف حالات دیکھ چکا ہوں لیکن غیر مقامی مزدورں کے مارے جانے کے حالیہ واقعات پہلے مرتبہ دیکھنے کو ملے ہیں۔ تاہم موجودہ صورتحال سے خوفزدہ نہیں ہوں کیونکہ یہاں کے لوگ بہتر طور پیش آتے ہیں جس سے ہم خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔
ان کے علاوہ مارچ کے اوائل میں ہر برس یہاں ملک کے کئی حصوں سے ہنرمند اور غیرہنر مند مزدور، سیلب ڈالنے والے، کھیتی باڑی کرنے والے مزدور، کارپنٹر اور پینٹر وغیرہ آتے ہیں جوکہ بعد میں نومبر کے وسط میں واپس چلے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہلاکتوں کو روکنے کی ذمہ داری مرکز پر عائد: فاروق عبداللہ
واضح رہے ٹارگیٹ کلینگس میں 6 اکتوبر کی شام سرینگر کے معروف دوا ساز ایم ایل بندو کو ہلاک کیا گیا جبکہ اسی کے دو دن بعد نامعلوم مسلح افراد نے شہر سرینگر کے عیدگاہ علاقے میں اسکول پرنسپل سمیت اقلیتی طبقے سے وابستہ دو اساتذہ کو بھی گولی مار ہلاک کر دیا تھا۔