اقلیتی طبقے کے ان منتخب امیداروں کو بھی سرکاری نوکریوں میں شمولیت کرنے کی اجازت دی جائے جو کہ سنہ 1990 سے دیگر کئی کشمیری پنڈت گھرانوں کی طرح وادیٔ کشمیر میں موجود رہے ہیں اور انہوں نے نقل مکانی نہیں کی۔ ان مختلف ذات کے ہندو امیدواروں کے ساتھ انصاف کیا جائے جس طرح غیر مہاجر کشمیری پنڈتوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ ان باتوں کا اظہار پینتھرس پارٹی کے جنرل سکریٹری حقیقت سنگھ نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ دراصل وزیر اعظم پیکج کے تحت حکومت نے سنہ 2017 میں باز آباد کاری پالیسی کے تحت ایس آر او 425 کے تحت جموں وکشمیر کے اقلیتی طبقے کے لیے 3 ہزار اسامیاں مختص کی گئی تھیں۔ جن میں پانچ سو اسامیاں ان غیر مہاجرین کے لیے بھی مخصوص رکھی گئی تھیں جو کہ وادیٔ کشمیر چھوڑ کر نہیں گئے اور ان میں کشمیری پنڈتوں کے علاوہ وہ ہندو بھی شامل ہیں جو کہ راج پوت، کھتری، برہمن اور دیگر ذات کے ہیں۔
اگرچہ ان اسامیوں کے لیے سنہ 2020 میں کشمیر پنڈتوں کے ساتھ ساتھ دیگر ذات کے امیدواروں نے بھی اس وقت فراہم کی گئی پروویژن بونافائیڈ سرٹیفکیٹ(provisional bonafide certificate) کی بنیاد پر آن لائن فارم جمع کیے، بعد میں ان امیدواروں نے انٹرویو میں شرکت کرکے کامیابی حاصل کی۔
لیکن جب ان امیدواروں کو نوکری جوائن کرنے کا وقت آیا تو مذکورہ ذات کے امیدواروں کو ملازمت جوائن کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ ان سے کشمیری پنڈت سرٹیفکیٹ طلب کی جارہی ہے جو کہ سراسر ان امیدواروں کے ساتھ ناانصافی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران حقیقت سنگھ نے سوالیہ انداز میں کہا کہ یہ امیدوار کس سے اور کہاں سے مذکورہ سرٹیفیکٹ حاصل کرسکتے ہیں اور کیا کشمیری پنڈت ہی ہندو طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور جو یہاں صدیوں سے رہ رہے دیگر ذات کے لوگ ہیں ان کا کیا ہوگا۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی پالیسی واضح کریں اور ان مذکورہ امیدواروں کا اپنا حق دیں۔ حقیقت سنگھ نے نیشنل کانفرس، پی ڈی پی، کانگریس، سی پی آئی ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس سنگین مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے آگے آئیں۔