ریاستی حکومت نے قانون ساز اسمبلی میں اس بات کا انکشاف کیا کہ صرف 2017 میں ریاست جموں و کشمیر میں 4714 وارداتیں ایسی درج کی گئیں جن سے عورتوں کی عزت اور انکا احساس تحفظ کسی نہ کسی طرح متاثر ہوا۔ان تشدّد کے واقعات میں آبرو کی پامالی، دست درازی، گھریلو تشدّد، ہراساں کیا جانا اور اغوا کاری کے واقعات قابل ذکر ہیں ۔
وہیں دوسری جانب اس بات کا بھی عندیہ ملتا ہے کہ خواتین کے تئیں بڑھتے گھریلو تشدد کے واقعات میں کس حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ان بڑھتے تشدد کے واقعات کی سب سے اہم وجہ اخلاقی تعلیم میں کمیاور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کو نہ اپنانے کو بھی ایک اہم وجہ کے طور پرمانا جارہا ہے۔
حال ہی میں سرینگر کے مہجور نگر عمران گلی علاقے کی ایک سکھ خاتون پربھ جوت کورعرف پوجاکی لاش اس کے سسرال میں پنکھے کے ساتھ لٹکتی ہوئی پائی گئی۔
پوجا کے والد نے ای ٹی وی کو بتایا کہ اسکی بیٹی کے سسرال والوں نے اسے جہیز کے لیے قتل کیا۔ اس سانحہ پر پوجا کے لواحقین نے انصاف کی خاطر زارو قطار روتے ہوئے مظاہرے بھی کیے۔
خواتین پر تشدد کے حوالے سے جموں وکشمیر پولیس نے 3ہزار کے قریب کیس درج کئے ہیں اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہذب سماج میں حوا کی بیٹی پر کیا بیت رہی ہے اور کس طرح سے اُسے تشدد کا نشانہ بنا کر اس عظیم مخلوق کی آبرو کو پامال کیا جا رہا ہے۔
سنہ 2014، 2015 اور 2016میں جہیز اور دیگر گھریلو تشدد سے جڑے معاملات کی وجہ سے 15خواتین کی جان چلی گئی جبکہ2017میں6خواتین نے پریشان ہوکر خودکشی کر لی۔
ماہرین کا ہے کہ علماء کرام، سماجی اداروں ، میڈیااور نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ خواتین کے حقوق کی آگاہی کے لیےاپنا موثر کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ نے عورت پر فطری طور پر یہ ذمہ داری عائد کر دی ہے کہ وہ اولاد کی مناسب تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دے اور ان میں ایمانداری، راست گوئی اوربہادری کے جوہر پیدا کرےتاکہ ایک صحت مند سماج کا وجود میں آنا ممکن ہوسکے۔