جموں و کشمیر میں نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے متعلق آج حدبندی کمیشن کی ایک میٹنگ دہلی میں منعقد Delimitation Commission Meeting کی گئی جس میں نیشنل کانفرنس کے تین ارکان پارلیمان نے بھی حصہ لیا۔ اطلاعات کے مطابق کمیشن نے حدبندی کے متعلق عبوری رپورٹ فراہم Delimitation Commission Draft کی ہے جس میں انہوں نے جموں صوبے میں چھ جبکہ وادی میں ایک نئے اسمبلی حلقے کے قیام کے متعلق تجویز دی ہے۔
کمیشن نے درج فہرست قبائل اور ذاتوں کی آبادیوں کے لئے نو اور سات سیٹوں کو مخصوص رکھنے کی تجاویز بھی رکھی ہیں۔اس نئی حدبندی سے جموں میں سیٹوں کی تعداد 43 جبکہ وادی کشمیر میں 47 ہوگی۔کمیشن نے 31 دسمبر تک ممبران کو اپنی تجاویز پیشن کرنے کی گزارش کی ہے۔
وادی کشمیر کی سیاسی جماعتوں بشمول پیپلز کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ان اطلاعات پر ردعمل کرتے ہوئے ان تجاویز کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے حدبندی کمیشن کی تجاویز پر اپنا مؤقف ظاہر کرتے ہوئے کہا کمیشن نے بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق حدبندی کی تجاویز کی ہے نہ کہ حقائق اور اعداد و شمار کے مطابق۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سائنسی اپروچ‘ کے بجائے یہ کمیشن کا ’سیاسی اپروچ‘ ہے۔
پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ حد بندی کمیشن کی تجاویز ہمیں قابل قبول نہیں ہیں۔
لون نے کہا کہ پہلے جموں و کشمیر کو بھاجپا نے 5 اگست کے دن اپنا نشانہ بنایا لیکن اب دوسرے وار میں صرف کشمیر وادی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ خاص طور پر کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف ہے۔
پی ڈی پی کے ترجمان سہیل بخاری نے کہا کہ انکی پارٹی کے حدبندی کے متعلق جو خدشات تھے وہ آج صحیح ثابت ہوئے ہیں۔
وہیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کرکے کہا کہ میرے خدشات حد بندی کمیشن کے لیےغلط نہیں تھے۔حد بندی کمیشن نے مردم شماری کو نظر انداز کرکے ایک خطے کے لیے 6 اور کشمیر کے لیے صرف ایک نشست تجویز کرکے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا۔
انہوں نے کہا اس کمیشن کا قیام بی جے پی کو سیاسی فائدے کے لیے اور لوگوں کو مذہبی اور علاقائی خطوط پر تقسیم کرنا تھا۔انہوں نے کہا کہ اصل گیم پلان جموں و کشمیر میں ایک حکومت قائم کرنی ہے جو اگست 2019 کے غیر قانونی اور غیر آئینی فیصلوں کو جائز قرار دے گی
یاد رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت حدبندی کمیشن کا قیام عمل میں لایا ہے۔
حد بندی کمیشن برائے جموں وکشمیر کی سربراہی ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کررہی ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور جموں وکشمیر کے ریاستی الیکشن کمشنر حد بندی کمیشن کے ممبران ہیں جبکہ جموں وکشمیر کے پانچ ممبران پارلیمنٹ کمیشن کے ایسوسی ایٹ ممبران ہیں، جن میں نیشنل کانفرس کے تین ارکان پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبدللہ ، جسٹس حسنین مسعودی ،محمد اکبر لون کے علاوہ بی جے پی کے دو ممبران پارلیمنٹ ڈاکٹر جیتندر سنگھ اور جگل کشور شرما شامل ہیں۔
رواں برس فروری میں ہونے والی حد بندی کمیشن کی میٹنگ سے نیشنل کانفرنس کے تین ممبران دور رہے تھے۔
پارٹی نے کمیشن کو اس وقت خط لکھا تھا جس میں اس بات کی تفیصیل دی گئی تھی کہ جے اینڈ کے ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کے متعلق عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔
یاد رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کا مرکزی سرکار کا فیصلہ اور تنظیم نو قانون 2019 کے خلاف کئی سیاسی و سماجی جماعتوں نے عدالت عظمیٰ میں چلینج کیا ہے، تاہم ابھی تک اس معاملے کی ایک بھی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2002 میں فاروق عبد اللہ کی حکومت نے حد بندی پر سنہ 2026 تک پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حد بندی کمیشن تشکیل دے کر یونین ٹریٹری میں مزید سات سیٹوں کا اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
سابق ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 111 تھی جن میں 87 پر ہی انتخابات منعقد ہوتے تھے باقی 24 سیٹوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے مخصوص رکھا گیا ہے۔