جموں:جموں کی خصوصی عدالت نے آج جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے خلاف ضمانتی وارنٹ جاری کیا۔ کورٹ نے ضمانتی وارنٹ روبیہ سعید کی جانب سے کورٹ میں حاضر نہ ہونے کی صورت میں کیا۔Bailable warrant issued against Rubaiya Sayeed
اس سے پہلے اس کیس میں روبیہ سعید 15 جون اپنے وکیل ایڈوکیٹ انل سیٹھی کے ساتھ جموں کی خصوصی سی بی آئی کورٹ میں حاضر ہوئی تھیں۔ روبیہ کو 1989 میں سرینگر کے بالائی علاقے سے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندون کی جانب سے اغوا کیے جانے سے متعلق درج کیس میں بطور گواہ طلب کیا گیا تھا۔ سی بی آئی کی وکیل مونیکا کوہلی کے مطابق اغوا کیس میں روبیہ سعید نے تہاڑ جیل میں مقید لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک سمیت تمام اغوا کاروں کی شناخت کر لی ہے۔
واضح رہے کہ کالعدم تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر محمد یاسین ملِک نے جموں کی ایک خصوصی عدلت سے روبیہ سعید معاملے اور بھارتیہ فضائیہ کے چار اہلکاروں کے قتل کے کیس کے سلسلے میں خود گواہوں سے جرح کرنے کی گزارش کی تھی۔عدالت نے انہیں گزشتہ روز اس کیس کے سلسلے میں قانونی مدد کی پیشکش کی۔ یاسین ملک نے کورٹ کی پیشگش کو ٹھکرا دیا۔ یاسین ملک نے سپیشل کورٹ سے جسمانی موجودگی یعنی آمنے سامنے سماعت کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا
قبل ازیں عدالت کے ایک سینیئر آفیسر کے مطابق 'یاسین ملِک نے گزارش کی ہے کہ وہ جموں عدالت میں ذاتی طور پر حاضر ہو کر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا معاملے میں گواہوں سے جرح کریں گے اور اگر اُن کو اجازت نہیں دی گئی تو وہ غیر معینہ مدت تک بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائیں گے۔ یاسین ملک نے اس حوالے سے مرکزی حکومت کو بھی خط لکھا ہے۔"
بتادیں کہ جس وقت اغوا کا یہ واقعہ سامنے آیا تھا، اس وقت مفتی محمد سعید مرکز میں وزیر داخلہ تھے اور آزادی کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جب بھارت میں کسی مسلمان کو یہ عہدہ دیا گیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ شریک وی پی سنگھ کی مخلوط جنتا دل حکومت کیلئے روبیہ سعید کی بازیابی ایک نازک صورتحال تھی۔جموں و کشمیر میں اس وقت ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی حکومت قائم تھی جو روبیہ سعید کی رہائی کے بدلے پانچ عسکریت پسندوں کو چھوڑنے کی مخالفت کررہی تھی۔روبیہ سعید ایک منی بس میں سرینگر کے میڈیکل کالج سے اپنی رہائش گاہ نوگام کی جانب جارہی تھی جب عسکریت پسندوں نے انہیں حیدر پورہ کے قریب بندوق کی نوک پر اغوا کیا۔ انہیں ایک ماروتی کار میں سوار کرکے سوپور پہنچادیا گیا تھا۔ روبیہ سعید اس وقت ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کررہی تھیں اور وزیر داخلہ کی بیٹی ہونے کے باوجود وہ مسافر بس میں سفر کررہی تھیں اور انہیں کوئی سکیورٹی نہیں دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
قابل ذکر ہے کہ یاسین ملک گزشتہ چار سال سے مختلف کیسوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔ ان کی تنظیم کو حکام نے 2017 میں غیر قانونی قرار دیا ہے۔ یاسین ملک کو دو ماہ قبل ایک ٹیرر فنڈنگ کیس میں دلی کی ایک ذیلی عدالت نے دو مرتبہ عمر قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ یہ سزائیں ان پر بیک وقت نافذ ہیں۔ یاسین ملک نے اس کیس میں اعتراف جرم کیا تھا اور خود ہی کیس کی پیروی کی تھی۔ حکام انکے خلاف دیگر دو کیسز میں بھی مقدمہ چلارہے ہیں جن میں 1989 میں اسوقت کے مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کا اغوا بھی شامل ہے۔ جولائی میں اس کیس میں روبیہ سعید جموں کی سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئیں جب کہ یاسین ملک نے دلی سے آن لائن انکے ساتھ جرح کی۔ Yasin Malik gets life imprisonment in terror funding case
یاسین ملک جموں و کشمیر کے ان علیحدگی پسندوں کے پہلے دستے میں شامل تھے جنہوں نے عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا تاہم انہوں نے 1994 میں اپنی تنظیم جے کے ایل ایف کو سیاسی محاذ پر سرگرم کیا تھا اور عسکریت کو خیر باد کہا تھا۔ انہوں نے عسکریت چھوڑنے کے بعد کئی وزرائے اعظم سے ملاقات کی جبکہ انہیں حکومت ہند نے بیرون ملک جانے کی بھی اجازت دی تھی جن میں پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Yasin Malik Case یاسین ملک نے قانونی امداد کی پیشکش مسترد کر دی