جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے سرینگر میں میڈیا نمائندوں کے ساتھ پرس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس نے 4 افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کے لیے حریت کے ذریعے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی خریدوفروخت کا الزام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرر فنڈنگ سے متعلق ایک پردہ فاش کیا گیا ہے۔جس میں عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے لیے پاکستان میں ایم بی بی ایس کروانے کی خاطر حریت کے ذریعے جموں وکشمیر کے طلباء کےلیے میڈیکل سیٹیں خریدی جاتی تھیں۔
پولیس کے مطابق اس کارروائی کے دوران جن 4 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ان میں محمد اکبر بٹ عرف ظفر اکبر بٹ،فاطمہ شاہ،محمد عبداللہ شاہ اور سبزار احمد شیخ کے نام شامل ہیں۔
طفر اکبر ماضی میں حزب المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈر رہے ہیں اور سنہ 2000 میں وہ حزب کے اس گروپ میں شامل تھے جنہوں نے اسوقت اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں مرکزی حکومت کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ بعد میں ظفر اکبر بٹ سیاسی منظر پر سرگرم ہوئے اور حریت کانفرنس کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ عسکریت پسندوں نے انکے بڑے بھائی عبدالغنی بٹ کو ہلاک کیا ہے۔ ظفر بٹ نے سالویشن مومنٹ نامی تنظیم قائم کی تھی جس کے ارکان سابق عسکریت پسند تھے۔ انکے بارے مین بتایا جاتا ہے کہ وہ سرکاری اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔
مزید پڑھیں:جموں و کشمیر ڈی جی پی نے صحافیوں کو پیٹے جانے پر نوٹس لیا
پولیس کے مطابق محمد عبدللہ شاہ کا بھائی 90 سے پاکستان میں ہے جوکہ حریت کے لیے پاکستان میں سہولت فراہم کے طور پر کام کررہا ہے۔
پولیس نے اس مبینہ ٹرر فنڈگ ماڈیول کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں مزید ملزمان کی گرفتاریاں متوقع ہے۔
چند مخصوص میڈیا ادارون کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے کہا کہ معاملے کی تفتیش ہر زاویہ سے کی جارہی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید انکشافات کئے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران جموں و کشمیر سے درجنوں طلبہ کو پاکستان کے مختلف میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کورس کیلئے داخلہ دیا گیا ہے۔ یہ سبھی طلبہ باضابطہ ویزا اور دیگر بین ملکی سفری لوازمات کو پورا کرنے کے بعد پاکستان چلے گئے ہیں۔ داخلے کے وقت حکومت ہند نے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے لیکن 5 اگست 2019 کے بعد کی صورتحال کے بعد انکے پاکستان میں رہنے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
ان طلبہ کی تعداد کے بارے میں خبریں اسوقت منظر عام پر آئی تھیں جب گزشتہ سال کووڈ کے پھیلاؤ کے دوران وہ اپنے وطن واپس آئے اور انہیں کورنٹین مراکز میں رکھا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اسوقت کے چیف سیکرٹری بی وی آر سبھرامنیم نے بڑی تعداد میں کشمیری طلبہ کے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے پر تعجب کا اظہار کیا تھا جس کے بعد پولیس کے ذریعے ان کی جانچ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سارک معاہدے کے تھت بھی طلبہ کو ایکدوسرے کی یونیورستیز مین داخلہ دیا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان نے حریت کانفرنس کی مختلف اکائیوں کو اختیار دیا تھا کہ انکی سفارش پر جموں و کشمیر کے طلبہ کو میڈیکل کالجز میں مخصوص نشستوں پر داخلہ دیا جائیگا۔ ماضی میں کئی حریت لیڈروں پر الزامات عائد کئے جارہے تھے کہ انہون نے اپنے منظور نظر طلبہ کو داخلے دئے ہیں یا داخلوں کے عوض بھاری رقومات حاصل کی ہیں۔