احمدآباد کے وٹوہ کے رہنے والے پیشے سے ٹیلر عائشہ کے والد لیاقت علی نے کہا کہ 'سال 2018 میں جیسلمیر (راجستھان) میں میں نے اپنی بیٹی کی شادی عارف خان سے کی تھی۔ شادی کے 2 ماہ بعد عارف کا کسی لڑکی سے کچھ معاملہ تھا۔عائشہ کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے اپنے سسرال والوں کو بتایا جس کے بعد عائشہ کے سسرال والے عائشہ کو ہی پریشان کرنے لگے اور مزید جہیز کا مطالبہ کرنے لگے۔
عائشہ کے والد لیاقت مکرانی کا کہنا ہے کہ 'ان کی بیٹی پڑھی لکھی اور کافی سمجھ دار تھی اچھی تعلیم کی وجہ سے وہ جاب بھی کر رہی تھی، اسی دوران 25 فروری کو 72 منٹ تک اس نے اپنے شوہر عارف سے بات کی'۔
انہوں نے کہا کہ 'اس کے بعد عائشہ نے ہمیں فون کیا، ہم نے اسے بہت روکا لیکن اس نے ہماری ایک نا سنی اور ندی میں کود کر خود کو ہلاک کرلیا۔ ہم لوگ باربار فون لگاتے رہے بعد میں کسی نے فون اٹھایا تو پتہ چلا کہ فون، بیگ، اور جوتے لاوارث حالت میں سابرمتی ندی کے پاس پڑے ہیں، ہم لوگ وہاں پہنچ کر لاش کو ڈھونڈنے لگے۔ سابر متی ندی کے کنارے ہمیں ہماری بیٹی کی لاش پڑی ملی۔
مزید پڑھیں: خود کشی کا دل شکن واقعہ: 'میں ہواؤں کی طرح ہوں، بس بہنا چاہتی ہوں'
عائشہ کی والدہ اور بھائی کا کہنا ہے کہ 'ہم تو اپنی بچی کو نہیں بچا سکے لیکن ہمیں انصاف چاہیے عارف کو سزا دی جائے اور جہیز کے نام پر لڑکیوں کو ستانے والوں کے خلاف سخت قدم اٹھایا جائے۔'