ETV Bharat / bharat

اہربل میں اہم ترین دریافت، کروڑوں برس پرانی فوسل سائٹ دریافت

author img

By

Published : Aug 29, 2021, 2:27 PM IST

ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ فوسل اوردووشین (Ordovician) اور ڈیونین (Devonian) دور کے ہیں۔ تاہم، مزید تحقیق اور کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے پختہ معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا یہ فوسلز ڈائینوسوسز سے بھی کروڑوں سال پرانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران عام طور پر پائے جانے والے حیاتیات کا تعلق بریزووا، ٹرائلوبائٹس، کرینوائڈز، برچیوپوڈس، کورلز وغیرہ سے ہے۔

اہربل میں اہم ترین دریافت
اہربل میں اہم ترین دریافت

جموں و کشمیر کی تاریخی اور اہم کھوج کے تحت ضلع کولگام کے دو لیکچررز نے اہربل علاقہ میں بہت بڑا فوسل سائٹ (Fossil Site) دریافت کیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فاسل سائٹ 488 سے 354 ملین سال پرانی ہو سکتی ہے۔ تاہم، ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے بعد ہی صحیح تاریخ کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

فوسل سائٹ کو دو لیکچرز منظور جاوید اور ڈاکٹر روف حمزہ کے ذریعے دریافت کیا گیا جب وہ یہاں فوسل کی تلاش (فوسل ہنٹنگ) میں آئے تھے۔ فوسل ماضی کے ارضیاتی دور سے کسی بھی زندہ چیز کے محفوظ شدہ باقیات یا نشان کو کہا جاتا ہے۔

یہ خبر جیو سائنس اور پیالوٹولوجی میں دلچسپی رکھنے والے محقیقین کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ یہ فوسل سائٹ نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ایشیا کی سب سے بڑی فوسل سائٹ ہو سکتی ہے۔

اہربل میں اہم ترین دریافت، کروڑوں برس پرانی فوسل سائٹ دریافت

سائٹ ضلع کولگام کے اہربل آبشار سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ سائٹ فوسل سے بھرا ہوا ہے۔

منظور جاوید نے کہا کہ ہزاروں فوسل بغیر کسی کھدائی کے زمینی سطح سے اوپر پر نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ فوسل کا بڑا ذخیرہ زمین کے نیچے ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سائٹ کے ممکنہ علاقوں کی کھدائی کی جائے تو یہ سائنسی دنیا کے لیے ایک حیران کن جیواشم دنیا کو ظاہر کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر رؤف حمزہ نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ فوسل اوردووشین (Ordovician) اور ڈیونین (Devonian) دور کے ہیں۔ تاہم، مزید تحقیق اور کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے پختہ معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا یہ فوسلز ڈائینوسوسز سے بھی کروڑوں سال پرانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران عام طور پر پائے جانے والے حیاتیات کا تعلق بریزووا، ٹرائلوبائٹس، کرینوائڈز، برچیوپوڈس، کورلز وغیرہ سے ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس جگہ کی حفاظت کو یقینی بنائے اور جیواشم میوزیم قائم کرے۔

ادھر دریافت کے فوراً بعد محکمہ آثار قدیمہ، جنگلات اور دیگر منسلک محکموں کے آفسران نے سائٹ کا دورہ کیا اور یہاں اس کھوج کے حوالے سے مذید معلومات حاصل کیں۔ محکمہ کے مطابق سائٹ پر ایک میوزیم کی تعمیر کا کام عمل میں لایا جائیگا تاکہ دنیا بھر کے پیالوٹولوجسٹ، جیو سائنس کے محقیقین و طلبا سائٹ کا دورہ کریں اور جموں وکشمیر کی تاریخ کو سمجھے۔

محکمہ آرکائیوز، آثار قدیمہ اور میوزیم کے عہدیداروں کے مطابق نمونے بابا اٹامک ریسرچ سینٹر (بی اے اے آر سی) کو بھیجے جائیں گے۔ ابھی تک ان فوسلز کی عمر اور پرنٹس کے بارے میں تصدیق نہیں ہو سکتی ہے۔ اسے سنجیدہ تحقیق اور کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، جیواشم کی موجودگی، رقبے، تنوع اور عمر کے لحاظ سے یہ جموں و کشمیر میں سب سے بڑی کھوج ہے۔

جموں و کشمیر میں زیادہ تر فوسل سائٹز یا تو غیر ملکیوں یا پیشہ ور افراد نے دریافت کی ہیں۔ تاہم، یہ شوقیہ فوسل ہنٹرس کی طرف سے خطہ میں واحد دریافت ہے۔

فی الحال، سرینگر کے مضافات میں زیون کا علاقہ کشمیر میں سب سے قدیم فوسل سائٹ سمجھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جے کے سی اے میں پچ رولر کی گمشدگی کا دلچسپ معاملہ

جموں و کشمیر کی تاریخی اور اہم کھوج کے تحت ضلع کولگام کے دو لیکچررز نے اہربل علاقہ میں بہت بڑا فوسل سائٹ (Fossil Site) دریافت کیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فاسل سائٹ 488 سے 354 ملین سال پرانی ہو سکتی ہے۔ تاہم، ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے بعد ہی صحیح تاریخ کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

فوسل سائٹ کو دو لیکچرز منظور جاوید اور ڈاکٹر روف حمزہ کے ذریعے دریافت کیا گیا جب وہ یہاں فوسل کی تلاش (فوسل ہنٹنگ) میں آئے تھے۔ فوسل ماضی کے ارضیاتی دور سے کسی بھی زندہ چیز کے محفوظ شدہ باقیات یا نشان کو کہا جاتا ہے۔

یہ خبر جیو سائنس اور پیالوٹولوجی میں دلچسپی رکھنے والے محقیقین کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ یہ فوسل سائٹ نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ایشیا کی سب سے بڑی فوسل سائٹ ہو سکتی ہے۔

اہربل میں اہم ترین دریافت، کروڑوں برس پرانی فوسل سائٹ دریافت

سائٹ ضلع کولگام کے اہربل آبشار سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ سائٹ فوسل سے بھرا ہوا ہے۔

منظور جاوید نے کہا کہ ہزاروں فوسل بغیر کسی کھدائی کے زمینی سطح سے اوپر پر نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ فوسل کا بڑا ذخیرہ زمین کے نیچے ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سائٹ کے ممکنہ علاقوں کی کھدائی کی جائے تو یہ سائنسی دنیا کے لیے ایک حیران کن جیواشم دنیا کو ظاہر کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر رؤف حمزہ نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ فوسل اوردووشین (Ordovician) اور ڈیونین (Devonian) دور کے ہیں۔ تاہم، مزید تحقیق اور کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے پختہ معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا یہ فوسلز ڈائینوسوسز سے بھی کروڑوں سال پرانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران عام طور پر پائے جانے والے حیاتیات کا تعلق بریزووا، ٹرائلوبائٹس، کرینوائڈز، برچیوپوڈس، کورلز وغیرہ سے ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس جگہ کی حفاظت کو یقینی بنائے اور جیواشم میوزیم قائم کرے۔

ادھر دریافت کے فوراً بعد محکمہ آثار قدیمہ، جنگلات اور دیگر منسلک محکموں کے آفسران نے سائٹ کا دورہ کیا اور یہاں اس کھوج کے حوالے سے مذید معلومات حاصل کیں۔ محکمہ کے مطابق سائٹ پر ایک میوزیم کی تعمیر کا کام عمل میں لایا جائیگا تاکہ دنیا بھر کے پیالوٹولوجسٹ، جیو سائنس کے محقیقین و طلبا سائٹ کا دورہ کریں اور جموں وکشمیر کی تاریخ کو سمجھے۔

محکمہ آرکائیوز، آثار قدیمہ اور میوزیم کے عہدیداروں کے مطابق نمونے بابا اٹامک ریسرچ سینٹر (بی اے اے آر سی) کو بھیجے جائیں گے۔ ابھی تک ان فوسلز کی عمر اور پرنٹس کے بارے میں تصدیق نہیں ہو سکتی ہے۔ اسے سنجیدہ تحقیق اور کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، جیواشم کی موجودگی، رقبے، تنوع اور عمر کے لحاظ سے یہ جموں و کشمیر میں سب سے بڑی کھوج ہے۔

جموں و کشمیر میں زیادہ تر فوسل سائٹز یا تو غیر ملکیوں یا پیشہ ور افراد نے دریافت کی ہیں۔ تاہم، یہ شوقیہ فوسل ہنٹرس کی طرف سے خطہ میں واحد دریافت ہے۔

فی الحال، سرینگر کے مضافات میں زیون کا علاقہ کشمیر میں سب سے قدیم فوسل سائٹ سمجھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جے کے سی اے میں پچ رولر کی گمشدگی کا دلچسپ معاملہ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.