ETV Bharat / bharat

Global Food Crisis عالمی قحط کا خطرہ، تین سال میں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد دگنا اضافہ

عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) World Food Programme نے کہا کہ کووڈ 19 سمیت وبائی امراض، عالمی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیں کے باعث دنیا بھر میں شدید غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 345 ملین تک جا پہنچی ہے، جو کہ کورونا وائرس جیسی عالمی وبا آنے سے قبل 135 ملین تھی۔ Global Food Crisis

Global Food Crisis
عالمی قحط کا خطرہ، 3 سال میں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد دگنا ہوگئی
author img

By

Published : Aug 25, 2022, 8:00 PM IST

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں ہونے کے بعد اب دنیا میں منڈراتا قحط کا خطرہ سر پر آن پہنچا ہے اور صرف 3 سالوں میں شدید غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد دگنا ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ کووڈ۔ 19 سمیت وبائی امراض، عالمی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیں کے باعث دنیا بھر میں شدید غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 345 ملین تک جا پہنچی ہے، جو کہ کورونا وائرس جیسی عالمی وبا آنے سے قبل 135 ملین تھی۔Global Food Crisis

ڈبلیو ایف پی کے علاقائی ڈائریکٹر کورین فلیشر نے غیر ملکی میڈیا کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے یہ خوفناک انکشاف بھی کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی تنازعات کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی چیلنجوں کا اثر ایک اور غیر مستحکم کرنے والا عنصر ہے جو خوراک کی کمی کو بڑھا سکتا ہے جو تنازعات اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بن سکتا ہے۔Global Food Crisis

انہوں نے کہا کہ ہم واقعی کوویڈ، موسمیاتی تبدیلی اور یوکرین میں جنگ کے پیچیدہ اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں، ہم اب دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور تنازعات کی وجہ سے 10 گنا زیادہ نقل مکانی دیکھ رہے ہیں اور یقیناً وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یوکرین کے بحران کے بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، یمن اپنی غذائی ضروریات کا 90 فیصد درآمد کرتا ہے۔Global Food Crisis

عراق جیسے تیل برآمد کرنے والے ممالک کے لیے، جو یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مستفید ہوئے، خوراک کی سلامتی خطرے میں ہے اور اس کو بھی تقریباً 5.2 ملین ٹن گندم کی ضرورت ہے جب کہ اس کی ملکی پیداوار 2.3 ملین ٹن گندم ہے، جس کی وجہ سے اسے بقیہ گندم مہنگے داموں درآمد کرنی پڑی۔ ریاستی حمایت کے باوجود، شدید خشک سالی اور بار بار پانی کے بحران پورے عراق میں چھوٹے مالکان کی روزی روٹی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کے سبب بھارت کو غذائی قلت سے نمٹنے کا چیلینج: رپورٹ

فلیشر نے بتایا کہ ڈبلیو ایف پی غذائی بحران کا شکار 16 ملین میں سے 13 ملین لوگوں کی مدد کرتا ہے، لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان میں سے صرف نصف کی روزانہ کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اس کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈبلیو ایف پی کے ذمے دار نے کہا کہ لاگت میں اوسطاً 45 فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ کوویڈ اور یوکرین میں جنگ کے باعث مغربی عطیہ دہندگان کو ساتھ بڑے معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے۔Global Food Crisis

یو این آئی

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں ہونے کے بعد اب دنیا میں منڈراتا قحط کا خطرہ سر پر آن پہنچا ہے اور صرف 3 سالوں میں شدید غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد دگنا ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ کووڈ۔ 19 سمیت وبائی امراض، عالمی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیں کے باعث دنیا بھر میں شدید غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 345 ملین تک جا پہنچی ہے، جو کہ کورونا وائرس جیسی عالمی وبا آنے سے قبل 135 ملین تھی۔Global Food Crisis

ڈبلیو ایف پی کے علاقائی ڈائریکٹر کورین فلیشر نے غیر ملکی میڈیا کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے یہ خوفناک انکشاف بھی کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی تنازعات کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی چیلنجوں کا اثر ایک اور غیر مستحکم کرنے والا عنصر ہے جو خوراک کی کمی کو بڑھا سکتا ہے جو تنازعات اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بن سکتا ہے۔Global Food Crisis

انہوں نے کہا کہ ہم واقعی کوویڈ، موسمیاتی تبدیلی اور یوکرین میں جنگ کے پیچیدہ اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں، ہم اب دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور تنازعات کی وجہ سے 10 گنا زیادہ نقل مکانی دیکھ رہے ہیں اور یقیناً وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یوکرین کے بحران کے بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، یمن اپنی غذائی ضروریات کا 90 فیصد درآمد کرتا ہے۔Global Food Crisis

عراق جیسے تیل برآمد کرنے والے ممالک کے لیے، جو یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مستفید ہوئے، خوراک کی سلامتی خطرے میں ہے اور اس کو بھی تقریباً 5.2 ملین ٹن گندم کی ضرورت ہے جب کہ اس کی ملکی پیداوار 2.3 ملین ٹن گندم ہے، جس کی وجہ سے اسے بقیہ گندم مہنگے داموں درآمد کرنی پڑی۔ ریاستی حمایت کے باوجود، شدید خشک سالی اور بار بار پانی کے بحران پورے عراق میں چھوٹے مالکان کی روزی روٹی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کے سبب بھارت کو غذائی قلت سے نمٹنے کا چیلینج: رپورٹ

فلیشر نے بتایا کہ ڈبلیو ایف پی غذائی بحران کا شکار 16 ملین میں سے 13 ملین لوگوں کی مدد کرتا ہے، لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان میں سے صرف نصف کی روزانہ کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اس کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈبلیو ایف پی کے ذمے دار نے کہا کہ لاگت میں اوسطاً 45 فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ کوویڈ اور یوکرین میں جنگ کے باعث مغربی عطیہ دہندگان کو ساتھ بڑے معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے۔Global Food Crisis

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.