وادی کشمیر میں آئے دن مختلف رہائشی علاقوں سے مکانات اور دیگر تعمیرات میں آگ لگنے کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں سامان کے علاوہ لوگوں کے خواب بھی جل کر خاک ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں سرینگر شہر سے بھی آتشزدگی کے واقعات کی اطلاع موصول ہوئی ہیں جس میں جانی و مالی نقصان بھی ہوا ہے۔Srinagar Witnesses Surge in Fire Incidents
وہیں محکمے فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کل 2342 معاملات سامنے آئے تھے جن میں 70 کروڑ روپے مالیت کی تعمیرات خاک ہوئی تھیں۔ یہ نقصان زیادہ بھی ہو سکتا تھا تاہم وقت پر محکمے کے اہلکاروں نے آگ پر قابو پا لیا اور اس کو زیادہ پھیلنے سے روک دیا۔
جہاں ہمیشہ باشندگان کو ہونے والی مشکلات کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور متاثرین کے لیے چندہ بھی جمع کیا جاتا ہے لیکن محکمے فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز کے اہلکاروں کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہوتی۔ حالیہ دنوں میں شہر میں لگی آگ کے دوران فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز محکمے کے چند اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے۔ اُن میں سے ایک شناخت رفیق احمد کٹھجو کے طور پر کی گئی تھی۔ رفیق احمد نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے اپنی مشکلات اور کام کے بارے میں تفصیلی تذکرہ کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "جیسے ہی ہمیں آگ لگنے کی اطلاع مصول ہوتی ہے، ہم وقت ضائع کئے بغیر جائے حادثہ پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن راستے میں ٹریفک اور غلط طریقے سے گاڑیاں پارک ہونے کی وجہ سے کافی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ لوگ سگنل کو بھی نظر انداز کرتے ہیں۔"
مزید پڑھیں:۔ Fire in Bandipora:ٹنگھاٹ بانڈی پورہ میں آتشزدگی، دو منزلہ مکان اور ایک گاؤ خانہ خاکستر
انہوں نے کہا کہ "شہر کی تنگ گلیوں سے گزرنا بھی مُشکِل ہوتا ہے۔ لوگ ناراض اور مایوس ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے ساتھ اکثر جھگڑا بھی ہوتا ہے لیکن ہم اپنے کام توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ لوگ ہماری مدد کرنے کی کوشش میں ہمارا کام بڑھا دیتے ہیں۔ اسلئے ہم اُن سے گزارش کرتے ہیں کی ہمیں کام کے دوران پریشان مت کیا کریں۔"
محکمے کی بچاؤ کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "لوگ پہلے یہ نہیں بتاتے کہ کسی مکان میں کوئی پھنسا ہوا ہے۔ جب بولتے ہیں تو کافی دیر ہو گئی ہوتی ہے۔ نوا کڑل میں لگی آگ کے دوران میرا ہاتھ اسلئے جلا کیونکہ میں ایک خاتون کو بچانے کے لیے ایک زیر آتش مکان میں داخل ہو گیا۔ اس سے پہلے سیکرٹ میں لگی آگ کے دوران میرے دونوں ہاتھ جل گئے تھے۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "انتظامیہ کی جانب سے ہمیں تمام سیفٹی تربیت اور گیئر دی جاتی ہے اور ہم اپنی ٹریننگ میں سب کچھ بہتر طریقے سے کرنا سیکھتے ہیں۔ پانی ختم ہو جائے تو دریا یہ دیگر وسائل سے پانی کا انتظام بھی کر سکتے ہیں۔ بس انتظامیہ اور عوام کو اس بات کا دیان رکھنا چاہیے کی ہم کو ایمرجنسی کے وقت راستہ دیں اور ہمارے کام میں مداخلت نہ کریں۔"