نیشنل کانفرنس کے بانی اور سابق وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ کی آج 39ویں برسی ہے۔ نیشنل کانفرنس سمیت مختلف جماعتوں نے مرحوم کو یاد کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 5 دسمبر 1905 کو سرینگر کے صورہ علاقے میں ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہونے والے شیخ محمد عبداللہ اپنی وفات تک مقبول عام رہنما رہے۔
یہ بات اس وقت واضح ہوئی جب 1982 میں لاکھوں افراد ان کے آخری سفر میں شامل ہوئے تھے جس میں اسوقت کے صدر ہند گیانی ذیل سنگھ اور وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی شامل تھے۔
تاہم ان کی شخصیت کے دو پہلو رہے ہیں۔ ستمبر 1989 میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے شیخ کی برسی پر ہڑتال کی کال دی اور اعلان کیا کہ 8 ستمبر کو ’یوم نجات‘ کے طور پر منایا جائے۔
حامیوں کے لیے شیخ محمد عبداللہ قدآور سیاسی رہنما اور 'شیر کشمیر' ہیں۔ سنہ 1930 میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد شیخ عبد اللہ سیاست میں ایک اہم شخصیت بن کر ابھرے۔
شیخ عبداللہ نے 1920 کی دہائی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی اور کشمیر واپسی کے بعد محکمۂ تعلیم میں بحیثیت استاد تعینات ہوئے۔ لیکن کشمیر اسوقت مطلق العنان ڈوگرہ حکمرانوں کی غلامی میں تھا اور مسلمانوں کا حساس طبقہ، ہندوستان میں آزادی کی تحریک سے متاثر ہوکر، کشمیر میں بھی انقلابی تبدیلیوں کیلئے پر تول رہا تھا۔
اس احساس کو اسوقت جلا ملی جب ایک افغان شہری نے سرینگر کی جامع مسجد میں ایک جذباتی تقریر کی اور کشمیریوں کو آزادی کیلئے اٹھ کھڑا ہونے کی تحریک دی۔ عبدالقدیر نامی اس نوجوان کو مہاراجہ کی پولیس نے گرفتار کیا۔ انکے مقدمے کی شنوائی کے موقعے پر 13 جولائی 1931 کو سرینگر کے سینٹرل جیل احاطے میں سینکڑوں لوگ جمع ہوئے۔ پولیس نے اندھادھند گولیاں چلائیں جس سے 22 کشمیری مظاہرین جاں بحق ہوئے۔ ان شہیدوں کی نماز جنازہ پر شیخ محمد عبداللہ کو بحیثیت لیڈر متعارف کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک زخمی نے جان دیتے ہوئے شیخ عبداللہ کو کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کے مشن آزادی کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔ اکتیس کے خونین واقعات کے بعد شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کے اہم ترین لیڈر بن کر سامنے آئے۔
شیخ عباللہ نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم و جبر کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی جس سے انکی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
آزادی کی تحریک کو سیکولر رنگ دینے کیلئے شیخ عبداللہ نے 1939 میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا۔ سنہ 1946 میں عبداللہ کی جانب سے مہاراجہ کے خلاف ’کشمیر چھوڑ دو تحریک' کا آغاز کیا گیا۔ تقسیم ہند کے موقعے پر کشمیر پر قبائلیوں نے حملہ کیا جس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ سرینگر چھوڑ کر جموں بھاگ گئے جہاں انہوں نے 26 اکتوبر کو یونین آف انڈیا کے ساتھ مشروط الحاق کر لیا جبکہ سرینگر کے ہوائی اڈے پر پہلی بار بھارتی فوج اتاری گئی۔ اس موقعے پر شیخ محمد عبداللہ کو جموں و کشمیر کا ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا جس کے بعد وہ وزیر اعظم بنائے گئے۔
شیخ عبداللہ نے 1939 میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرکے ہی بھارت کے ساتھ اپنے مستقبل کا اعلان کیا تھا۔ مؤرخین کے مطابق جب پاکستان کے بانی محمد علی جناح کشمیر وارد ہوئے تو شیخ عبداللہ اور انکے کارکنوں نے انکے ساتھ تذلیل آمیز سلوک کیا جبکہ آنجہانی جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی کے ساتھ انکا سلوک دوستانہ رہا۔
شیخ عبداللہ 9 اگست 1953 تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان رہے لیکن اس روز انہیں ایک پولیس اہلکار نے گلمرگ سے گرفتار کیا اور انہیں معزول کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ مرکزی حکومت کے مطابق شیخ عبداللہ ریاست کے خلاف سازش میں ملوث تھے۔ پانچ برس بعد ان پر "کشمیر سازش معاملہ" کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور 11 برس کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔
انکی حراست کے دوران انکے کارکنوں نے محاذ رائے شماری کی بنیادڈالی اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عوامی مزاحمت چلائی۔ محاذ رائے شماری کے لیڈر عوامی جلسوں میں لوگوں کو سبز رومال اور پاکستانی نمک دکھاتے تھے۔
عبداللہ نے تاہم جیل سے رہائی کے بعد سنہ 1975 میں اپنی طویل جدوجہد ترک کر دی۔ انہوں نے 22 سالہ جدوجہد کو ’سیاسی آوارہ گردی‘ قرار دیا اور 'اندرا عبداللہ ایکارڈ' کے تحت نئی دہلی کے ساتھ اقتدار میں واپس آنے کی ڈیل کی۔ تاہم اس مرحلے تک کشمیر کی جہلم ندی سے کافی پانی بہہ چکا تھا۔ انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا گیا تھا لیکن اب وہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرکے واپس اقتدار میں آگئے۔ سیاسی مبصرین عبداللہ کے اس قدم کو ان کی سیاست کے زوال کی شروعات کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
سنہ 1990 سے 2019 تک دہلی اور سرینگر کی حکومتیں جموں و کشمیر کے لوگوں کو شیخ کے راستے پر چلنے کو کہتے تھے۔ لیکن دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد دہلی نے شیخ کو الوداع کہہ دیا۔ جموں و کشمیر حکومت نے ان کی سالگرہ کو چھٹیوں کی فہرست سے بھی نکال دیا۔ حکام نے انکے بیٹے فاروق عبداللہ اور پوتے عمر عبداللہ، جو دونوں غیر منقسم ریاست کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، کو بھی گرفتار کیا ۔ انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کئی ماہ تک زیر حراست رکھا گیا۔ شیخ عبداللہ نے اپنے سیاسی مخالفین کیلئے یہ ایکٹ متعارف کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کے 'نیا کشمیر' نعرے کی تاریخ بھی شیخ عبداللہ سے وابستہ ہے۔ اصل میں انہوں نے ہی 1944 میں سب سے پہلے ان الفاظ کا استعمال کیا تھا۔
شیخ عبداللہ نے جب 1944 میں مہاراجہ ہری سنگھ کو میمورنڈم پیش کیا تھا اسی میمورنڈم میں 'نیا کشمیر' کا ذکر کیا گیا تھا۔
'نیا کشمیر' منصوبہ کشمیر میں بے حد مقبول ثابت ہوا کیونکہ یہ ایک فلاحی ریاست کا بلیو پرنٹ تھا۔ اردو زبان میں نیا کشمیر کا متن 'تحریک حریت کشمیر' میں دوبارہ چھاپا گیا ہے
شیخ عبداللہ کو کچھ لوگ ہیرو مانتے ہیں جبکہ وہ کچھ لوگوں کے لئے ویلن ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی قبر کی حفاظت کے لئے سیکورٹی گارڈز تعینات کئے گئے ہیں تاکہ اس پر کوئی حملہ نہ کرے۔