تین طلاق کے خلاف قانون بننے پر اگرچہ سماجی و ملی تنظیموں نے اس کی حمایت اور اس کی مخالفت میں خوب آوازیں بلند کیں تاہم 2019 میں حکومت نے تین طلاق کے خلاف قانون بنا کر ملک میں نافذ کر دیا، جس کے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ اتر پردیش میں اگست 2019 سے اکتوبر 2021 تک 21059 کیسز درج ہوئے ہیں جبکہ 2018 میں تقریبا 66 ہزار تین طلاق کے کیس درج ہوئے تھے۔
اترپردیش پولیس کے مطابق ان میں سے 4742 کیس فرضی پائے گئے ہیں جبکہ 1587 افراد کی گرفتاری ہوئی ہے، 787 افراد جیل میں ہیں، 10285 افراد کی ضمانت ہو چکی ہے اور 2348 افراد پولیس کی گرفت سے باہر ہیں۔
مزید پڑھیں:۔ تین طلاق اور خلع کے درمیان فرق
صلح کیندر تنظیم کی بانی ڈاکٹر رضوانہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پوری ٹیم ازدواجی زندگی کے حوالے سے سماج میں کام کرتی ہے۔ تین طلاق کے متعلق خواتین کو جس ذہنی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بیشتر افراد تین طلاق قانون کے خوف سے اب تین طلاق نہیں دے رہے ہیں اور نہ ہی ان کو اپنے گھر لے جارہے ہیں۔ ایسے میں خواتین کسمپرسی کی بھی شکار ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آپسی صلح اور بات چیت کے ذریعہ ان کے مسائل کو حل کیا جاتا ہے ۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس قانون سے عوام میں خوف پیدا ہوا ہے اور تین طلاق جو سماج کا ایک ناسور بنتا جا رہا تھا، اس سے خواتین کو نجات ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون سے خواتین میں خوش کی لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور لکھنؤ کے عیش باغ عید گاہ کے شاہی امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا کہنا ہے کہ طلاق کا معاملہ مسلم سماج میں دیگر سماج کے مقابلے میں پہلے ہی سے کم تھا اور اس سمت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ مختلف طریقہ سے کام کر رہا ہے، جس میں بھارت کے بیشتر شہروں میں دارالقضاء قائم کئے گئے ہیں اور وہ عوامی مسائل کو حل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اس جانب بھر پور توجہ دے رہا ہے تاکہ لوگ تین طلاق کا غلط استعمال نہ کریں اور خواتین کی حقوق کی پامالی نہ ہوسکے۔