ETV Bharat / bharat

Hand Dyeing Work Dying in Gaya: برسوں قدیم رنگائی کا کام روبہ زوال

author img

By

Published : Jan 25, 2022, 8:23 PM IST

Updated : Jan 25, 2022, 10:40 PM IST

گیا میں رنگریز برادری Dyers Community of Gaya دستکاری کے فن سے وابستہ ہے اور یہ لوگ کپڑوں پر چھپائی اور رنگائی کا کام کرتے ہیں۔ حالانکہ پرانے کپڑوں کو رنگ کر استعمال کرنے کا رجحان اب کم ہو گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بہار میں کپڑوں کی رنگائی سب سے پہلے گیا میں شروع ہوئی تھی، چھپائی کے کام سے جڑے لوگوں کے مطابق شہر کی یہ رنگریز تکنیک دو سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔

Hand Dyeing Work Dying in Gaya
Hand Dyeing Work Dying in Gaya

ریاست بہار کے ضلع گیا میں دو سو برس پہلے رنگریز برادریDyers Community نے رنگین و سفید کپڑوں کو رنگنے کا کاروبار شروع کیا تھا، لیکن اب اس تکنیک کو جدیدیت کی جنگ اور حکومت کی بے توجہی کا سامنا ہے۔ پرانے کپڑوں کو رنگ کر استعمال کرنے کا رجحان بھی اب کم ہو گیا ہے، حالانکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار Bihar CM Nitish Kumar نے دست کاری کے فروغ کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا تاہم محکمہ صنعت Department of Industry کے پاس کئی مہینوں سے فائلیں پڑی ہیں، بتایا جاتا ہے کہ بہار میں کپڑے کی رنگائی سب سے پہلے گیا میں شروع ہوئی تھی۔

Hand Dyeing Work Dying in Gaya

گیا میں رنگریز برادری Dyers Community of Gaya کی پہچان دست کاری کے لیے معروف ہے دست کاری میں چھپائی اور رنگائی دونوں شامل ہیں یہ دونوں کام سبھی طرح کے کپڑے پر ہوتے ہیں، کہا جاتا ہے گیا میں موسیقی کی روایت جتنی قدیم ہے اس سے کہیں زیادہ پرانی رنگریز تکنیک ہے۔ چھپائی کے کام سے جڑے لوگوں کے مطابق شہر کی یہ رنگریز تکنیک دو سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہے ملک کی آزادی کے بعد کچھ برسوں تک شادی بیاہ، پوجا ہون اور دیگر خوشی کے موقع پر رشتے داروں کے یہاں کپڑوں کا تبادلہ سمیت سبھی طرح کے خوشی کے موقع پر رنگے ہوئے کپڑوں کی کافی مانگ تھی خاص طور پر شادی میں رنگی ہوئی دھوتی ہی پہنی جاتی تھی اور رنگے ہوئے کپڑے شادی میں نہیں ہوتے تو وہ شادی مبارک تسلیم نہیں کی جاتی۔
موجودہ وقت میں قلب شہر میں چوک کے پاس واقع رنگریز گلی اس بات کی گواہ ہے، قریب چار سو فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی اس پوری گلی میں تب کے وقت رنگائی کیے ہوئے کپڑے ہی جھولتے رہتے تھے اس گلی میں رہنے والے لوگوں کا یہی رنگائی کا کاروبار تھا۔ اس محلے کے علاوہ بھی شہر کے پنچایتی اکھاڑا سمیت کئی اور محلوں میں رنگریز تکنیک کا بول بالا تھا، گھر کے پرانے کپڑے بھی رنگ کر استعمال میں لائے جاتے تھے لیکن جس تیزی کے ساتھ شہر میں جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں کا استعمال ہونے لگا اس سے کہیں زیادہ پرانی چیزیں جن سے شہر اور ایک طبقہ معروف تھا وہ چیزیں بھی بند ہونے لگیں۔ اب رنگریز برادری کی دست کاری میں رنگائی کے کام شہر کے دو کنبہ میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔

موجودہ وقت میں رنگریز رنگائی کے کام میں لگے محمد ممتاز نے بتایا کی ان کے آبا و اجداد جن میں بھورے میاں شامل ہیں انہوں نے دو سو برس پہلے اس کی شروعات کی تھی گیا میں رنگائی اور چھپائی خاص طور پر چاندی کے طبق کی چھپائی کے لیے لوگوں کو ہفتے انتظار کرنا پڑتا تھا اب حالات بالکل الٹ گئے ہیں اب کسٹمر آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے روزانہ چار پانچ کام ہی آتے ہیں اتنے کام سے اہل خانہ کی پرورش نہیں ہو پاتی ہے گھر کے زیادہ تر افراد روزی روٹی کے لئے دوسرے روزگار کی طرف رخ کرنے لگے ہیں۔


ایک اور شخص محمد عامر نے بتایا کہ وہ اپنے والد سکندر رنگریز سے رنگائی کا ہنر سیکھا تھا جبکہ ان کے والد نے اپنے والد لادو لیلگر سے سیکھا تھا۔ یہ کام ان کا خاندانی ہے لیکن اب اس کام میں گرہن لگ گیا ہے، حکومت کی توجہ اس جانب نہیں ہے۔


رنگریز برادری کی پہچان اور ان کی دست کاری کے مددگار ابھی بھی بودھ بھکشو بنے ہوئے ہیں کیونکہ بودھ بھکشو یہیں اپنا لباس لیکر آتے ہیں اور یہیں رنگوا کر پہنتے ہیں حالانکہ ابھی کورونا کی وجہ سے بودھ بھکشو بھی نہیں آرہے ہیں کیونکہ بودھ گیا میں واقع مہابودھی مندر بند ہے ساتھ ہی کال چکر پوجا سمیت دیگر پوچا بھی بند ہے ایسے میں بودھ بھکشو کی آمد نہیں ہورہی ہے یہاں موجود ایک سماجی کارکن دلیپ نے بتایا کہ ہزاروں لامہ یہاں کپڑے لیکر آتے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے سب بند پڑا ہے حکومت نے ان کے روزگار اور ہنر کی قدر نہیں کی، یہ پوری گلی آج بھی رنگریز گلی کے نام سے معروف ہے پہلے یہاں مکھن ملائی اور کھوے کے لیے بھی مشہور تھی لیکن اب وہ بھی بند ہوگیا ہے۔

وزیر اعلی نتیش کمار نے اس کاروبار کو معدوم ہونے سے بچانے اور اس کی ترقی کیلئے 'رنگریز آرٹیسن کمیٹی' بھی بنائی تھی۔ اس کمیٹی کے ایک اہم رکن مستقیم رنگریز نے بتایا کہ اگر یہ کمیٹی پوری طرح کام کرنا شروع کردے تو چھپائی و رنگائی پیشہ سے وابستہ افراد کو روزی روٹی کے لیے در در بھٹکنا نہیں پڑے گا یہ کمیٹی 17 ستمبر 2019 کو بنی تھی تاکہ لوگوں کو خود انحصار بنایاجاسکے۔


مستقیم کا کہنا ہے کہ چھاپے اور رنگائی کے کاروبار کی حوصلہ افزائی اور اس کی اپنی مارکیٹ کی ضرورت ہے ان دونوں کو کھادی گرام انڈسٹریز کی صنعت کے طرز پر صنعت کا درجہ ملنا چاہیے انہوں نے کہا کہ اپنی چیزیں کھلے بازار میں فروخت کرنے کے لیے پرنٹ کلاتھ مال قائم کیا جائے کمیٹی قیام کا مقصد کاٹیج انڈسٹری کاروبار کو بازار میں کھڑا کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کرنا تھا لیکن افسوس کہ محکمہ صنعت کے وزیر سید شاہنواز حسین کے یہاں فائل پڑی ہوئی ہے اسے منظوری نہیں ملی ہے۔

ریاست بہار کے ضلع گیا میں دو سو برس پہلے رنگریز برادریDyers Community نے رنگین و سفید کپڑوں کو رنگنے کا کاروبار شروع کیا تھا، لیکن اب اس تکنیک کو جدیدیت کی جنگ اور حکومت کی بے توجہی کا سامنا ہے۔ پرانے کپڑوں کو رنگ کر استعمال کرنے کا رجحان بھی اب کم ہو گیا ہے، حالانکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار Bihar CM Nitish Kumar نے دست کاری کے فروغ کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا تاہم محکمہ صنعت Department of Industry کے پاس کئی مہینوں سے فائلیں پڑی ہیں، بتایا جاتا ہے کہ بہار میں کپڑے کی رنگائی سب سے پہلے گیا میں شروع ہوئی تھی۔

Hand Dyeing Work Dying in Gaya

گیا میں رنگریز برادری Dyers Community of Gaya کی پہچان دست کاری کے لیے معروف ہے دست کاری میں چھپائی اور رنگائی دونوں شامل ہیں یہ دونوں کام سبھی طرح کے کپڑے پر ہوتے ہیں، کہا جاتا ہے گیا میں موسیقی کی روایت جتنی قدیم ہے اس سے کہیں زیادہ پرانی رنگریز تکنیک ہے۔ چھپائی کے کام سے جڑے لوگوں کے مطابق شہر کی یہ رنگریز تکنیک دو سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہے ملک کی آزادی کے بعد کچھ برسوں تک شادی بیاہ، پوجا ہون اور دیگر خوشی کے موقع پر رشتے داروں کے یہاں کپڑوں کا تبادلہ سمیت سبھی طرح کے خوشی کے موقع پر رنگے ہوئے کپڑوں کی کافی مانگ تھی خاص طور پر شادی میں رنگی ہوئی دھوتی ہی پہنی جاتی تھی اور رنگے ہوئے کپڑے شادی میں نہیں ہوتے تو وہ شادی مبارک تسلیم نہیں کی جاتی۔
موجودہ وقت میں قلب شہر میں چوک کے پاس واقع رنگریز گلی اس بات کی گواہ ہے، قریب چار سو فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی اس پوری گلی میں تب کے وقت رنگائی کیے ہوئے کپڑے ہی جھولتے رہتے تھے اس گلی میں رہنے والے لوگوں کا یہی رنگائی کا کاروبار تھا۔ اس محلے کے علاوہ بھی شہر کے پنچایتی اکھاڑا سمیت کئی اور محلوں میں رنگریز تکنیک کا بول بالا تھا، گھر کے پرانے کپڑے بھی رنگ کر استعمال میں لائے جاتے تھے لیکن جس تیزی کے ساتھ شہر میں جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں کا استعمال ہونے لگا اس سے کہیں زیادہ پرانی چیزیں جن سے شہر اور ایک طبقہ معروف تھا وہ چیزیں بھی بند ہونے لگیں۔ اب رنگریز برادری کی دست کاری میں رنگائی کے کام شہر کے دو کنبہ میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔

موجودہ وقت میں رنگریز رنگائی کے کام میں لگے محمد ممتاز نے بتایا کی ان کے آبا و اجداد جن میں بھورے میاں شامل ہیں انہوں نے دو سو برس پہلے اس کی شروعات کی تھی گیا میں رنگائی اور چھپائی خاص طور پر چاندی کے طبق کی چھپائی کے لیے لوگوں کو ہفتے انتظار کرنا پڑتا تھا اب حالات بالکل الٹ گئے ہیں اب کسٹمر آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے روزانہ چار پانچ کام ہی آتے ہیں اتنے کام سے اہل خانہ کی پرورش نہیں ہو پاتی ہے گھر کے زیادہ تر افراد روزی روٹی کے لئے دوسرے روزگار کی طرف رخ کرنے لگے ہیں۔


ایک اور شخص محمد عامر نے بتایا کہ وہ اپنے والد سکندر رنگریز سے رنگائی کا ہنر سیکھا تھا جبکہ ان کے والد نے اپنے والد لادو لیلگر سے سیکھا تھا۔ یہ کام ان کا خاندانی ہے لیکن اب اس کام میں گرہن لگ گیا ہے، حکومت کی توجہ اس جانب نہیں ہے۔


رنگریز برادری کی پہچان اور ان کی دست کاری کے مددگار ابھی بھی بودھ بھکشو بنے ہوئے ہیں کیونکہ بودھ بھکشو یہیں اپنا لباس لیکر آتے ہیں اور یہیں رنگوا کر پہنتے ہیں حالانکہ ابھی کورونا کی وجہ سے بودھ بھکشو بھی نہیں آرہے ہیں کیونکہ بودھ گیا میں واقع مہابودھی مندر بند ہے ساتھ ہی کال چکر پوجا سمیت دیگر پوچا بھی بند ہے ایسے میں بودھ بھکشو کی آمد نہیں ہورہی ہے یہاں موجود ایک سماجی کارکن دلیپ نے بتایا کہ ہزاروں لامہ یہاں کپڑے لیکر آتے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے سب بند پڑا ہے حکومت نے ان کے روزگار اور ہنر کی قدر نہیں کی، یہ پوری گلی آج بھی رنگریز گلی کے نام سے معروف ہے پہلے یہاں مکھن ملائی اور کھوے کے لیے بھی مشہور تھی لیکن اب وہ بھی بند ہوگیا ہے۔

وزیر اعلی نتیش کمار نے اس کاروبار کو معدوم ہونے سے بچانے اور اس کی ترقی کیلئے 'رنگریز آرٹیسن کمیٹی' بھی بنائی تھی۔ اس کمیٹی کے ایک اہم رکن مستقیم رنگریز نے بتایا کہ اگر یہ کمیٹی پوری طرح کام کرنا شروع کردے تو چھپائی و رنگائی پیشہ سے وابستہ افراد کو روزی روٹی کے لیے در در بھٹکنا نہیں پڑے گا یہ کمیٹی 17 ستمبر 2019 کو بنی تھی تاکہ لوگوں کو خود انحصار بنایاجاسکے۔


مستقیم کا کہنا ہے کہ چھاپے اور رنگائی کے کاروبار کی حوصلہ افزائی اور اس کی اپنی مارکیٹ کی ضرورت ہے ان دونوں کو کھادی گرام انڈسٹریز کی صنعت کے طرز پر صنعت کا درجہ ملنا چاہیے انہوں نے کہا کہ اپنی چیزیں کھلے بازار میں فروخت کرنے کے لیے پرنٹ کلاتھ مال قائم کیا جائے کمیٹی قیام کا مقصد کاٹیج انڈسٹری کاروبار کو بازار میں کھڑا کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کرنا تھا لیکن افسوس کہ محکمہ صنعت کے وزیر سید شاہنواز حسین کے یہاں فائل پڑی ہوئی ہے اسے منظوری نہیں ملی ہے۔

Last Updated : Jan 25, 2022, 10:40 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.