ETV Bharat / bharat

مولانا کلب صادق : ایک عہد کا خاتمہ

author img

By

Published : Nov 25, 2020, 2:04 PM IST

Updated : Nov 25, 2020, 9:31 PM IST

خلق خدا کے بے لوث خدمت گزار، فرقہ وارانہ اتحاد کے علمبردار، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر عالمی شہرت یافتہ شیعہ عالم دین ڈاکٹر کلب صادق نے گزشتہ دیرشب81 برس کی عمر میں دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔

مولانا کلب صادق کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ
مولانا کلب صادق کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر اور معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق کا آج ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں لکھنؤ میں سپرد خاک کردیاگیا۔ ان کا گزشتہ دیر شب لکھنؤ کے ایک اسپتال میں 81 برس کی عمر میں انتقال ہوگیاتھا۔

مولانا کلب صادق 22 جون 1939 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے، انہوں نے اے ایم یو سے ماسٹر ڈگری اور لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی ادب میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔

مولانا کلب صادق کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ڈاکٹر کلب صادق نہ صرف حکومت کے فیصلوں پر اپنی بیباک رائے کے اظہار کے لیے جانے جاتے تھے بلکہ حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کی پرزور مخالفت بھی کیا کرتے تھے۔

مولانا کلب صادق : ایک عہد کا خاتمہ

مولانا ایک سیکولر شخص تھے اور یہی وجہ ہے کہ غیر مسلموں کے درمیان بھی ان کے اثرو رسوخ پائیدار تھے۔ ایک موقعے سے انہوں نے کہا تھا کہ ان کی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ تب ہوگا جب وہ اپنے ہندو بچوں کی خدمت کریں گے۔

ایک بار خطاب کے دوران مولانا نے کہا تھا کہ 'مجھے مسلمانوں سے شکایت ہے لیکن ہندوؤں سے کبھی شکایت نہیں ہوئی کیونکہ ہندوؤں نے مجھے ہمیشہ عزت اور پیار دیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اندر قوم وملت کے تئیں خاصی ہمدردی تھی۔

ان کی شکایت تھی کہ 'مسلمانوں سے پوچھیے دین کیا ہے؟ کہیں گے کہ نماز پڑھنا، روزے رکھنا، حج کرنا لیکن یہ دین نہیں ہے۔ مولانا کلب صادق نے 2016 میں خطاب میں کہا تھا کہ 'مسلمانوں کو خود جینے کا سلیقہ نہیں پتہ اور نوجوانوں کو مذہب کا راستہ دکھاتے ہیں، انہیں پہلے خود کو آئیڈیل بنانا ہوگا جس سے مسلم نوجوان ان کی راہ پر چلیں۔ آج مسلمانوں کو مذہب سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔

مولانا کلب صادق محض عالم دین نہیں تھے بلکہ سماج کو ایک نئی راہ دکھانے والے تھے، وہ صرف مسلم سماج کی بات نہیں کرتے تھے بلکہ سماج کے ہر طبقے کی بات کیا کرتے تھے۔

ان کے اندر قوم و ملت کے تئیں ہمدردی تھی، وہ اپنے ہر خطاب میں مسلمانوں کی پسماندگی کے ازالے اور اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے پر خاصا زور دیا کرتے تھے۔

مولانا کلب صادق نے رواں سال آخری بار شہریت ترمیمی بل کے خلاف لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے سامنے دھرنے پر بیٹھی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے درمیان جا کر خطاب کیا تھا۔

دانشور حلقوں نے مولانا کے کی رحلت کو انسانیت کا بہت بڑا خسارہ قرار دیا ہے۔ مولانا نے ہمیشہ اتحاد کو ترجیح دیا، اور نا اتفاقی کو پس پشت ڈال کر آپسی بھائی چارے کی داغ بیل ڈالنے کی پیہم کوشش کی۔

ڈاکٹر کلب صادق اگر چہ شیعہ عالم دین تھے تاہم ملک و بیرون ممالک کے تمام مکاتب فکر میں ادب و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ان کی مقبولیت نہ صرف شیعہ برادری میں تھی بلکہ سنی حلقوں میں بھی وہ انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔

مولانا کے انتقال سے علمی حلقوں میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے بلکہ آپ کاانتقال ملک و ملت کے لیے ایک سانحہ عظیم سے کم نہیں ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر اور معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق کا آج ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں لکھنؤ میں سپرد خاک کردیاگیا۔ ان کا گزشتہ دیر شب لکھنؤ کے ایک اسپتال میں 81 برس کی عمر میں انتقال ہوگیاتھا۔

مولانا کلب صادق 22 جون 1939 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے، انہوں نے اے ایم یو سے ماسٹر ڈگری اور لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی ادب میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔

مولانا کلب صادق کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ڈاکٹر کلب صادق نہ صرف حکومت کے فیصلوں پر اپنی بیباک رائے کے اظہار کے لیے جانے جاتے تھے بلکہ حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کی پرزور مخالفت بھی کیا کرتے تھے۔

مولانا کلب صادق : ایک عہد کا خاتمہ

مولانا ایک سیکولر شخص تھے اور یہی وجہ ہے کہ غیر مسلموں کے درمیان بھی ان کے اثرو رسوخ پائیدار تھے۔ ایک موقعے سے انہوں نے کہا تھا کہ ان کی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ تب ہوگا جب وہ اپنے ہندو بچوں کی خدمت کریں گے۔

ایک بار خطاب کے دوران مولانا نے کہا تھا کہ 'مجھے مسلمانوں سے شکایت ہے لیکن ہندوؤں سے کبھی شکایت نہیں ہوئی کیونکہ ہندوؤں نے مجھے ہمیشہ عزت اور پیار دیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اندر قوم وملت کے تئیں خاصی ہمدردی تھی۔

ان کی شکایت تھی کہ 'مسلمانوں سے پوچھیے دین کیا ہے؟ کہیں گے کہ نماز پڑھنا، روزے رکھنا، حج کرنا لیکن یہ دین نہیں ہے۔ مولانا کلب صادق نے 2016 میں خطاب میں کہا تھا کہ 'مسلمانوں کو خود جینے کا سلیقہ نہیں پتہ اور نوجوانوں کو مذہب کا راستہ دکھاتے ہیں، انہیں پہلے خود کو آئیڈیل بنانا ہوگا جس سے مسلم نوجوان ان کی راہ پر چلیں۔ آج مسلمانوں کو مذہب سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔

مولانا کلب صادق محض عالم دین نہیں تھے بلکہ سماج کو ایک نئی راہ دکھانے والے تھے، وہ صرف مسلم سماج کی بات نہیں کرتے تھے بلکہ سماج کے ہر طبقے کی بات کیا کرتے تھے۔

ان کے اندر قوم و ملت کے تئیں ہمدردی تھی، وہ اپنے ہر خطاب میں مسلمانوں کی پسماندگی کے ازالے اور اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے پر خاصا زور دیا کرتے تھے۔

مولانا کلب صادق نے رواں سال آخری بار شہریت ترمیمی بل کے خلاف لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے سامنے دھرنے پر بیٹھی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے درمیان جا کر خطاب کیا تھا۔

دانشور حلقوں نے مولانا کے کی رحلت کو انسانیت کا بہت بڑا خسارہ قرار دیا ہے۔ مولانا نے ہمیشہ اتحاد کو ترجیح دیا، اور نا اتفاقی کو پس پشت ڈال کر آپسی بھائی چارے کی داغ بیل ڈالنے کی پیہم کوشش کی۔

ڈاکٹر کلب صادق اگر چہ شیعہ عالم دین تھے تاہم ملک و بیرون ممالک کے تمام مکاتب فکر میں ادب و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ان کی مقبولیت نہ صرف شیعہ برادری میں تھی بلکہ سنی حلقوں میں بھی وہ انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔

مولانا کے انتقال سے علمی حلقوں میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے بلکہ آپ کاانتقال ملک و ملت کے لیے ایک سانحہ عظیم سے کم نہیں ہے۔

Last Updated : Nov 25, 2020, 9:31 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.