اندور: اندور کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کی آج چوتھی برسی ہے وہ عالمی وبا کورونا سے متاثر ہو گئے تھے اور 11 اگست 2020 کو علاج کے دوران خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ ان کی چوتھی برسی کے موقع پر ان کے مداح انہیں بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ یاد کر خیراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر راحت اندوری ادبی دنیا کے ایک ایسی شخصیت تھی جو منفرد لب و لہجے کی وجہ سے ان کی شاعری بڑی مقبول ہوئی۔ تقریبا آدھی صدی تک انہوں نے ملک بیرون ممالک میں جہاں بھی اردو بولی اور سمجھی جاتی تھی مشاعرے پڑھے اور مقبولیت پائی۔
جدید غزل میں ایک منفرد مقام حاصل کرنے والے راحت اندوری یکم جنوری 1950 کو اندور میں پیدا ہوئے تھے ان کے والد رفعت اللہ قریشی کپڑا میل میں ملازم تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم نو تن اسکول ہوئی۔ جوانی کے دنوں میں انہوں نے کئی دنوں تک فلموں کے پوسٹر اور سائن بورڈ بناتے تھے۔ وہی اعلی تعلیم کے لیے بھوپال روانہ ہو گئے۔ ایم اے اردو کرنے کے بعد پی ایچ ڈی حاصل کی اور پھر کالج میں بطور استاد خدمات انجام دیتے رہے۔ لیکن شاعری اور مشاعروں کے ذوق و شوق کے چلتے یہ سفر ایک مدت بعد چھوڑ دیا اور مکمل طور پر وہ شاعر کی حیثیت سے مقبول ہوئے۔
ڈاکٹر راحت اندوری نے فلمی دنیا میں ڈھک میں نگاری کا کام بھی انجام دیا۔ مگر دل مشاعروں کی طرف راغب تھا۔ تو وہاں بھی وہ زیادہ دن نہیں ٹھہرے اور پھر مشاعرے کی طرف لوٹ آئے۔ ان کی شاعری لب و لہجے انقلابی اشعار جو سماج کے دبے کچلے کے حالات کو بیاں کرتی تھی۔ اسی لیے ان کی شاعری عام انسان کے حالات پر زیادہ مرکوز ہے۔
ان کے ایک چاہنے والے نے جو پڑوسی ملک میں مقیم ہیں اپنے سوشل میڈیا وال پر ان کی شاعری کو بطور خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی میری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے تیرے شہر میں آتے جاتے
رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ
ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے
میں تو چلتے ہوئے صحراؤں کا ایک پتھر تھا
تم تو دریا تھے میری پیاس بجھاتے جاتے
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں آیا شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
ڈاکٹر راحت اندوری