ETV Bharat / state

افطار کے دسترخوان کی زینت ہے گیا کی امرتی مٹھائی

Delicious Imarti Of Gaya گیا میں تیار ہونے والی امرتی مٹھائی ایک انتہائی لذیذ مٹھائی ہے جو ناصرف ضلع بھر میں بلکہ دوسرے اضلاع میں بھی معروف ہے اور خاص طور پر اس کی مانگ رمضان المبارک میں بڑھ جاتی ہے۔ امرتی مٹھائی 'جلیبی' کی شکل کی ہوتی ہے تاہم اس کا ذائقہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ رمضان میں تقریباً ہر گھر میں افطار کے دسترخوان کی زینت ہے۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 20, 2024, 5:40 PM IST

افطار کے دسترخوان کی زینت ہے گیا کی امرتی مٹھائی
افطار کے دسترخوان کی زینت ہے گیا کی امرتی مٹھائی
افطار کے دسترخوان کی زینت ہے گیا کی امرتی مٹھائی

گیا: ویسے تو ملک کے ہر خطے اور گوشے میں کھان پان کی اشیاء کی اپنی ایک منفرد شناخت ہے۔ وہ اپنے ذائقے کی وجہ سے خوب پسند بھی کی جاتی ہے۔ چند ایسی مٹھائی ہیں جو کئی جگہوں پر بنتی ہیں، لیکن اُن مٹھائیوں کی اقسام میں کچھ ایسی مٹھائیاں ہیں جن کا ذائقہ مختلف مقامات پر تیار ہونے پر بدل جاتا ہے۔ اُن ہی مٹھائیوں میں ایک 'امرتی'بھی ہے۔

امرتی مٹھائی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ البتہ یہ کہ یہ مٹھائی کچھ شہروں میں انتہائی مقبول مٹھائی ہے جس میں بہار کا ضلع گیا بھی ہے۔ یہاں کی امرتی مٹھائی اپنے ایک الگ ذائقے کی وجہ کر دوسری جگہوں پر بھی مشہور ہے۔ یہاں ضلع گیا سے بننے والی یہ مٹھائی دوسرے اضلاع میں بھی سپلائی کی جاتی ہے بلکہ یہاں ضلع گیا سے دوسری ریاستوں کے لوگ بھی اپنے ساتھ بطور تحفہ لے کر جاتے ہیں۔

چونکہ ضلع گیا مذہبی سیاحتی اور ثقافتی طور ملک اور بیرون ممالک میں معروف ہے اور اس کی ایک الگ پہچان ہے۔ امرتی مٹھائی یوں تو سال بھر بکتی ہے لیکن رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی اس کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چونکہ رمضان المبارک میں افطار اور کھانے میں میٹھے کے طور پر اس کا استعمال ہوتا ہے۔ یہاں چند ایسے حلوائی ہیں جن کے یہاں گھنٹوں گرم امرتی لینے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اُنہی میں ایک شکیل حلوائی ہیں جن کے یہاں رمضان میں افطار سے قبل تین گھنٹے کے درمیان پچیس سے تیس کلو امرتی کی بکری ہے۔ شکیل بتاتے ہیں کہ امرتی بنانا ان کا خاندانی کام ہے۔ اتر پردیش کے پلی بھت سے ان کے دادا برطانوی حکومت کے دور میں اس مٹھائی کی تجارت کے لئے گیا آئے تھے۔ بعد میں وہ یہیں مقیم ہو گئے۔ ان کے یہاں رمضان میں سب سے زیادہ امرتی فروخت ہوتی ہے۔ روزہ دار اسے شوق سے کھاتے ہیں۔ اُن کے اس کام میں ان کے بچے بھی ساتھ دیتے ہیں۔

شکیل بتاتے ہیں گیا کی امرتی کی خاصیت دوسرے جگہوں سے بلکل مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی امرتی دوسری جگہوں پر بھی جاتی ہے۔ ضلع گیا میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہر دن امرتی مٹھائی دکانوں سے تقریبا آٹھ سے دس کوئنٹل کی کھپت ہوگی۔ رمضان کے پہلے اور دوسرے عشرے میں اور بھی زیادہ کھپت ہے کیونکہ گیا ضلع کی تقریبا سبھی مساجد اور وہ سبھی مقامات جہاں تراویح کی نماز ہوتی ہے۔ وہاں آخری دن مقتدیوں میں شرنی کے طور پر امرتی مٹھائی ہی فروخت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے پہلے اور دوسرے عشرے میں امرتی کی کھپت زیادہ ہے کیونکہ اوسطا ایک مسجد میں بیس سے پچیس کلو امرتی جاتی ہے۔ فی عدد اس کی پانچ روپے سے آٹھ روپے ہے۔

مغلوں کے دور کی ہے مٹھائی

امرتی مٹھائی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ کافی پرانی مٹھائی ہے۔ کچھ کا ماننا ہے کہ مغلوں کے دور سے یہ مٹھائی بن رہی ہے۔ شکیل احمد بتاتے ہیں کہ گیا میں ان کے دادا نے امرتی بنانا شروع کیا تھا لیکن ان کے دادا بتاتے تھے کہ ان کا بھی کام خاندانی ہے اور ان کے خاندان کے افراد مغلوں کے دور سے امرتی بنانے کا کام کرتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امرتی مغلوں کے دور سے بن رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:Demand for GI Tag for Tilkut انتہائی لذیذ میٹھائی تل کوٹ آج تک سرکاری پہچان کی محتاج

جلیبی سے ملتی ہے امرتی :

امرتی مٹھائی کی شکل جلیبی کی طرح ہے حالانکہ کچھ فرق بھی ہے لیکن ذائقے اور بنانے کے طور طریقے الگ ہیں۔ جلیبی بنانے میں آٹا استعمال ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ صرف میٹھا ہوتا ہے۔ جب کہ امرتی اُرد دال کے آٹے سے بنتی ہے اور یہ میٹھی لگتی ہے لیکن امرتی کا ذائقہ جلیبی کے ذائقے سے بہت مختلف ہے۔ جلیبی کُرکُری ہوتی ہے اور امرتی دال کی وجہ سے اتنی کرسپی نہیں ہوتی۔ ایک دن کے بعد جلیبی کا ذائقہ بھی بدل جاتا ہے اور وہ خراب بھی ہونے لگتی ہے لیکن امرتی کئی دنوں تک رکھ کر کھائی جاسکتی ہے۔

افطار کے دسترخوان کی زینت ہے گیا کی امرتی مٹھائی

گیا: ویسے تو ملک کے ہر خطے اور گوشے میں کھان پان کی اشیاء کی اپنی ایک منفرد شناخت ہے۔ وہ اپنے ذائقے کی وجہ سے خوب پسند بھی کی جاتی ہے۔ چند ایسی مٹھائی ہیں جو کئی جگہوں پر بنتی ہیں، لیکن اُن مٹھائیوں کی اقسام میں کچھ ایسی مٹھائیاں ہیں جن کا ذائقہ مختلف مقامات پر تیار ہونے پر بدل جاتا ہے۔ اُن ہی مٹھائیوں میں ایک 'امرتی'بھی ہے۔

امرتی مٹھائی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ البتہ یہ کہ یہ مٹھائی کچھ شہروں میں انتہائی مقبول مٹھائی ہے جس میں بہار کا ضلع گیا بھی ہے۔ یہاں کی امرتی مٹھائی اپنے ایک الگ ذائقے کی وجہ کر دوسری جگہوں پر بھی مشہور ہے۔ یہاں ضلع گیا سے بننے والی یہ مٹھائی دوسرے اضلاع میں بھی سپلائی کی جاتی ہے بلکہ یہاں ضلع گیا سے دوسری ریاستوں کے لوگ بھی اپنے ساتھ بطور تحفہ لے کر جاتے ہیں۔

چونکہ ضلع گیا مذہبی سیاحتی اور ثقافتی طور ملک اور بیرون ممالک میں معروف ہے اور اس کی ایک الگ پہچان ہے۔ امرتی مٹھائی یوں تو سال بھر بکتی ہے لیکن رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی اس کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چونکہ رمضان المبارک میں افطار اور کھانے میں میٹھے کے طور پر اس کا استعمال ہوتا ہے۔ یہاں چند ایسے حلوائی ہیں جن کے یہاں گھنٹوں گرم امرتی لینے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اُنہی میں ایک شکیل حلوائی ہیں جن کے یہاں رمضان میں افطار سے قبل تین گھنٹے کے درمیان پچیس سے تیس کلو امرتی کی بکری ہے۔ شکیل بتاتے ہیں کہ امرتی بنانا ان کا خاندانی کام ہے۔ اتر پردیش کے پلی بھت سے ان کے دادا برطانوی حکومت کے دور میں اس مٹھائی کی تجارت کے لئے گیا آئے تھے۔ بعد میں وہ یہیں مقیم ہو گئے۔ ان کے یہاں رمضان میں سب سے زیادہ امرتی فروخت ہوتی ہے۔ روزہ دار اسے شوق سے کھاتے ہیں۔ اُن کے اس کام میں ان کے بچے بھی ساتھ دیتے ہیں۔

شکیل بتاتے ہیں گیا کی امرتی کی خاصیت دوسرے جگہوں سے بلکل مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی امرتی دوسری جگہوں پر بھی جاتی ہے۔ ضلع گیا میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہر دن امرتی مٹھائی دکانوں سے تقریبا آٹھ سے دس کوئنٹل کی کھپت ہوگی۔ رمضان کے پہلے اور دوسرے عشرے میں اور بھی زیادہ کھپت ہے کیونکہ گیا ضلع کی تقریبا سبھی مساجد اور وہ سبھی مقامات جہاں تراویح کی نماز ہوتی ہے۔ وہاں آخری دن مقتدیوں میں شرنی کے طور پر امرتی مٹھائی ہی فروخت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے پہلے اور دوسرے عشرے میں امرتی کی کھپت زیادہ ہے کیونکہ اوسطا ایک مسجد میں بیس سے پچیس کلو امرتی جاتی ہے۔ فی عدد اس کی پانچ روپے سے آٹھ روپے ہے۔

مغلوں کے دور کی ہے مٹھائی

امرتی مٹھائی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ کافی پرانی مٹھائی ہے۔ کچھ کا ماننا ہے کہ مغلوں کے دور سے یہ مٹھائی بن رہی ہے۔ شکیل احمد بتاتے ہیں کہ گیا میں ان کے دادا نے امرتی بنانا شروع کیا تھا لیکن ان کے دادا بتاتے تھے کہ ان کا بھی کام خاندانی ہے اور ان کے خاندان کے افراد مغلوں کے دور سے امرتی بنانے کا کام کرتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امرتی مغلوں کے دور سے بن رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:Demand for GI Tag for Tilkut انتہائی لذیذ میٹھائی تل کوٹ آج تک سرکاری پہچان کی محتاج

جلیبی سے ملتی ہے امرتی :

امرتی مٹھائی کی شکل جلیبی کی طرح ہے حالانکہ کچھ فرق بھی ہے لیکن ذائقے اور بنانے کے طور طریقے الگ ہیں۔ جلیبی بنانے میں آٹا استعمال ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ صرف میٹھا ہوتا ہے۔ جب کہ امرتی اُرد دال کے آٹے سے بنتی ہے اور یہ میٹھی لگتی ہے لیکن امرتی کا ذائقہ جلیبی کے ذائقے سے بہت مختلف ہے۔ جلیبی کُرکُری ہوتی ہے اور امرتی دال کی وجہ سے اتنی کرسپی نہیں ہوتی۔ ایک دن کے بعد جلیبی کا ذائقہ بھی بدل جاتا ہے اور وہ خراب بھی ہونے لگتی ہے لیکن امرتی کئی دنوں تک رکھ کر کھائی جاسکتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.