لکھنو: اتر پردیش میں تقریبا 20 فیصد مسلم آبادی ہے جو مغربی اتر پردیش سمیت 20 پارلیمانی نشست پر فیصلہ کن ووٹر ثابت ہوتا ہے۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو چکا ہے ایسے میں اعداد و شمار کے مطابق ریاست کے تقریبا 95 فیصد مسلمانوں نے انڈیا اتحاد کو جم کر ووٹ کیا ہے جبکہ بہوجن سماج پارٹی نے تقریبا 22 امیدوار مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ انہوں نے بھی دلت اور مسلم ووٹ کا کچھ حصہ حاصل کیا ہے تا ہم مسلم ووٹروں نے یکطرف ووٹ کر کے انڈیا اتحاد کو بڑی کامیابی دلائی ہے۔
اس سلسلے میں یو پی کی سیاست پر خاص نظر رکھنے والے سید حیدر عباس رضوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں مسلمانوں کے مسائل مختلف تھے اور یہی وجہ تھی کہ انڈیا اتحاد کو ایک مشت مسلمانوں کا ووٹ پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں برسر اقتدار بی جے پی کی سیاسی جماعت نے بلڈوزر کے ذریعے مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا اور انہدامی کاروائی کی۔ یوپی کی کئی مسجدوں پر مندر ہونے کا بھی دعوی کیا گیا مدرسوں کو بھی کورٹ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ مسلم شناخت کو لے کر بھی آئے دن مسائل برپا ہوتے رہتے تھے۔ روڈ پر نماز اور مسجدوں پر لاؤڈ سپیکر کے حوالے سے پولیس نے بے جا کاروائیاں کئی علاقوں میں کی۔ یو پی میں برسر اقتدار بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سماجوادی پارٹی کے قدآور رہنما اعظم خان کو جس طریقے سے جیل کے قید و بند میں رکھا جا رہا ہے اور ان پر جھوٹے مقدمے دائر کیے گئے اسی نوعیت پر مختار انصاری کی پراسرار موت ہو گئی، مسلم رہنماؤں پر جس طریقے سے مقدمے درج کرا کے انہیں جیل بھیجا جا رہا ہے اور مسلم قیادت ختم کی جا رہی ہے یہ تمام مسائل مسلمان دیکھ رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انڈیا اتحاد کو ایک مشت ووٹ ڈال کر کامیابی دلائی ہے۔
سید حیدر عباس رضوی نے کہا کہ لکھنو میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ شیعہ طبقے کے لوگ بی جے پی کو ووٹ کرتے ہیں لیکن 2024 کے نتائج سے واضح ہوا کہ شیعہ مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ صرف 74 ہزار ووٹ سے ہی کامیاب ہوئے ہیں جبکہ 2019 کے انتخابات میں تین لاکھ سے زائد ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کچھ شیعہ علماء ان کے ساتھ تصویر لیتے ہیں ان کے حمایت کا اعلان کرتے ہیں لیکن قوم نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ اپنے مسائل پر ووٹ کیا ہے۔