مظفر نگر: اتر پردیش کے مظفر نگر میں وقف ترمیمی بل 2004 کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ کے کیو آر کوڈ اسکین کر اپنے اعتراض درج کرانے کی شروع کی گئی۔ مہم کو جمعیت علمائے ہند کے کارکنان اور عہدے داران نے آگے بڑھاتے ہوئے شہر کے مختلف چوراہوں، گلیوں دکانوں، مسجدوں کے باہر کیو آر کوڈ چسپاں کیے اور راستے میں ملنے والے لوگوں سے کیو آر کوڈ اسکین بھی کرائے اور لوگوں کو بتایا کہ زیادہ سے زیادہ آپ اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرا کر اپنے اعتراض مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں درج کرائیں۔
کیو آر کوڈ کو چسپاں کرنے والے مولانا وسیم عالم نے بتایا کہ جو وقف بورڈ بل آ رہا ہے اس کے لیے عوام میں شعور پیدا کیا جا رہا ہے کہ اس کے بارے میں سب اپنی اپنی رائے دیں۔ اسی کے لیے یہ کیو آر کوڈ مہم کو چلایا جا رہا ہے۔ ہم سب لوگوں کو بیدار کر رہے ہیں کہ حکومت جو یہ بل لائی ہے اس کے بارے میں ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق ہے۔ ہندوستانی عوام ہونے کے ناطے اپنی رائے دیں۔ رائے دیں کہ جو یہ وقف بورڈ بل آیا ہے یہ پاس نہ ہو یہ اس کے لیے یہاں اسکینر لگائے ہیں۔ لوگوں کو بیدار کر رہے ہیں اور آنے جانے والوں کو محلے محلے دکانداروں کو ہندوستان کی عوام ہونے کے ناطے یہ کیو آر اسکین کو ہم نے شہر کے مرکزی چوراہوں، گلیوں اور دکانوں پر چسپاں کیا ہے اور اس کیو آر کوڈ کو لوگو سے اسکین بھی کرا رہے ہیں اور ہماری جو خاتون کی ٹیم ہے وہ بھی گھر گھر جا کر اس کام کو بخوبی انجام دے رہی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہم کیو آر کوڈ اسکین کرائیں اور اپنے اعتراضات مسلم پرسنل لا بورڈ میں درج کرائیں۔ جس سے کہ یہ وقف و ترمیمی بل 2024 نہ آ سکے۔
تو وہیں کیو آر اسکین کوڈ کے بارے میں مزید معلومات دیتے ہوئے قاری ذاکر حسین جمعیت علمائے ہند ریاستی سیکرٹری نے بتایا کہ مرکزی حکومت ایک وقف و ترمیمی بل لے کر آئی ہے جو پارلیمنٹ کے اندر پاس نہیں ہو سکا ہے۔ جے پی سی یعنی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے پاس بھیجا گیا ہے۔ اب کیونکہ اوقاف جو ہے کہ جن لوگوں نے اپنی جائیدادوں کو وقف کیا ہے ان کی ایک منشا ہے۔ انہوں نے اپنی جائیداد کو جس مقصد کے لیے جس منشا سے وقف کیا ہے۔ اس کے اندر اگر وہ خود بھی ترمیم کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ حکومت کیسے اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔
ملک کے اندر ایسی بہت سارے ہندوؤں اور سکھوں میں اس طرح کے بورڈ بنے ہوئے ہیں کہ ان کی ان جائیدادوں کی نگرانی و دیکھ بھال کے لیے جس کمیونٹی کا وہ ہے اس کمیونٹی کے لوگ کرتے ہیں۔ جس کمیونٹی کا ہے تو اس کمیونٹی کے لوگ اس میں ہیں۔ اس کے اندر دوسری کمیونٹی کے لوگوں کو شامل کرنے کی بات کی جا رہی ہے اور بہت ساری باتیں ہیں جن کو ہم ڈیٹیل میں نہیں بتانا چاہتے۔ بس ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ہم اسے کسی بھی طریقے سے ایکسیپٹ کرنے کے لیے قبول کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
یہ بیداری اور لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جو کیو آر کوڈ پرسنل لا بورڈ یا جمعیت علمائے ہند کہہ رہی ہے اور جمعیت علماء ہند کا کہنا بھی ہے کہ ہم اسے کسی بھی طرح سے قبول نہیں کر سکتے اور اس کے لیے کوششیں اور جدوجہد جاری ہی۔ جس کے لیے لوگوں کو کہا جا رہا ہے کیونکہ جے پی سی رائے مانگ رہی ہے تو آپ اپنی رائے دیجیے۔ اپنی بات پہنچائیں۔