اتر پردیش: یو پی کے امروہہ پارلیمانی نشست پر 64.2 فیصد پولنگ ہوئی۔ جبکہ میرٹھ پارلیمنٹ نشست پر 58.70 فیصد ہوئی باغپت میں 55.93 فیصد غازی آباد میں 49.59 فیصد گوتم بدھ نگر میں 53.21 فیصد بلند شہر میں 55.79 فیصد علی گڑھ میں 56.62 فیصد جبکہ متھرا میں 49.29 فیصد پولنگ ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش میں دوسرے مرحلے کی پولنگ اوسط 54.85 فیصد رہی ہے۔ مغربی اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کے سینیئر رہنما و سابق کابینہ وزیر شاہد منظور بتاتے ہیں کہ میرٹھ پارلیمانی نشست پر مسلم اور دلت اکثرتی علاقوں میں پولنگ فیصد میں اضافہ رہا جبکہ دیگر طبقات کے علاقوں میں پولنگ فیصد میں کمی درج کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ کینٹ علاقے میں ووٹنگ فیصد کم رہی اس علاقے میں زیادہ تر بی جے پی کے حمایتی آباد ہیں جبکہ ان کے اسمبلی حلقہ کٹھور میں 61 فیصد لوگوں نے ووٹ کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی کے سپورٹرز میں ناراضگی ہے اور بی جے پی کے پالیسیوں سے لوگ خفا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ گھر سے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے نہیں نکل رہے ہیں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ فصل کٹائی کا وقت ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسان گیہوں، مسور، سرسو اور گنا کاٹنے میں مصروف ہے ووٹ کرنے نہیں آئے۔
مغربی اتر پردیش کے معروف صحافی پرویز تیاگی بتاتے ہیں کہ رواں برس وٹنگ فیصد میں کافی گراوٹ رہی ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل جب بھی ووٹنگ ہوتی تھی تو مغربی اترپردیش میں کئی پولنگ مراکز کو کیپچر کرلیا جاتا تھا لیکن اس بار صاف و شفاف الیکشن ہوئے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ مغربی اتر پردیش کا کسان ناراض ہے بی جے پی اور اس کی حمایتی پارٹیاں اگرچہ اس کے حق کی بات کرنے کا دعوی کرتی ہوں لیکن راشٹریہ لوک دل کے بی جے پی کے ساتھ جانے کے بعد بھی مغربی اتر پردیش کے کسانوں میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ووٹنگ فیصد میں بھی بڑی تعداد میں گراوٹ درج کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یوپی کے جن جن نشتوں پر بی جے پی کامیاب ہو سکتی ہے ان نشستوں پر ووٹنگ فیصد میں کمی رہی ہیں وہ کہتے ہیں کہ متھرا سیٹ پر بی جے پی کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں۔وہاں سے 2014 میں ہیما مالنی اور 2019 میں بھی وہی امیدوار رہی ہیں لیکن 2014 میں 64 فیصد جبکہ 2019 میں 63 فیصد پولنگ ہوئی تھی لیکن اس بار متھورا میں 48 فیصد ووٹنگ ہوئی جس سے واضح ہے کہ بی جے پی کے ووٹر میں ناراضگی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کی ووٹنگ میں ایک اہم فرق جو نظر آ رہا ہے وہ یہ کہ ووٹر بالکل خاموش ہے اور خاموشی کے ساتھ ووٹ کر رہا ہے۔ جبکہ اس سے قبل کے لوک سبھا انتخابات میں ایک شور ہوتا تھا اور کچھ پارٹیوں کے لیے خصوصی ماحول بنتے تھے لیکن اس برس وہ ماحول نہیں دکھ رہا ہے۔