علیگڑھ: ”مثالی نصاب تعلیم برائے مدارس اور قومی تعلیمی پالیسی 2020“ کے موضوع پر دو روزہ قومی ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس میں اپنے صدارتی کلمات میں پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے کہا کہ ہماری پرانی تاریخ میں دینی و دنیوی علوم کی تفریق نہیں ملتی۔ قرآن میں آفاق و انفس پر غور کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، ہمارے علماء، عالم بھی ہوتے تھے اور سائنسداں بھی، طب و فلکیات کے ماہرین بھی۔ موجودہ یوروپ کی سائنسی ترقیات کا راز عہد قدیم کے علماء کی مرہون منت ہے۔ بنیادی سائنس کا ارتقا عہد وسطیٰ کے مسلمانوں کے ذریعہ ہوا اور جب سے مسلمانوں نے علم کی تفریق شروع کی اس وقت سے ہمارا زوال شروع ہوگیا۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں بالخصوص مدارس اسلامیہ کے تعلق سے جو مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں ان کے تدارک کی اجتماعی اور منظم کوشش ہونی چاہئے۔ ضرورت ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے اس ورکشاپ میں ہم وہ نظام تعلیم تیار کرسکیں جو ان کے لئے مفید ہو اور عصر حاضر سے ہم آہنگ بھی ہو۔ ورکشاپ میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے جامعہ ہدایہ، جے پور کے مولانا فضل الرحیم مجددی نے نصاب تعلیم کے تعلق سے جامعہ ہدایہ کی کوششوں کا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے کہاکہ جامعہ ہدایہ کی اتباع میں بعض مدارس اسلامیہ نے جزوی طور پر اس کے نصاب تعلیم کو اپنایا۔ ہم نے ریاضی، سائنس، جغرافیہ اور انگریزی کی بنیادی تعلیم کے علاوہ کمپیوٹر کی تعلیم کا نصاب بنایا ہے جو کئی عشرے سے جامعہ ہدایہ میں جاری ہے۔
پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے کہا کہ تعلیم کا ایک مقصد طلباء کو روزگار سے جوڑنا بھی ہے۔ ہر شخص محدث، مفسر اور فقیہ نہیں ہوجاتا۔ ان علوم میں اختصاص بھی ضروری ہے لیکن ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تعلیمی نصاب کو بھی نافذ کرنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ علم کی صرف دو تقسیم ہے: ایک علم نافع اور دوسرا علم غیرنافع۔ علم نافع سیکھنے کی ترغیب دی گئی اور علم غیرنافع سے پناہ مانگی گئی ہے۔ موجودہ زمانہ کے بے شمار چیلنجز ہیں، انہیں میں سے ایک تعلیم ہے جو عصر حاضر سے ہم آہنگ ہو اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت طلبا کے اندر پیدا کی جائے۔
مرکز فروغ سائنس کے ڈائرکٹر نسیم احمد خاں نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے مرکز کا مختصر تعارف کرایا۔ انھوں نے کہاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مسلمانان کی ترقی کے لئے مختلف مراکز اور پروگرام بنائے ہیں۔ اس مرکز کا قیام 1981 ء کے ترمیمی ایکٹ کے بعد مدارس کے طلباء و اساتذہ کے درمیان سائنس کے فروغ کے لئے عمل میں آیا۔ انھوں نے کہاکہ قرآن میں آیات آفاق و انفس اس بات کی دعوت دیتی ہیں کہ عصری ارتقاء کے تناظر میں ہر طرح کے بنیادی علوم کے لئے مدارس میں دروازے کھولے جائیں۔ اس ورکشاپ میں قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی روشنی میں مدارس کے نصاب کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کہاکہ یہ بہت سنجیدہ اور بڑا موضوع ہے۔ انھوں نے کہاکہ مرکز فروغ سائنس کا مقصد یہ تھا کہ مدارس کے طلباء اور اساتذہ کے درمیان فروغ سائنس کی کوشش کی جائے، اس پر غور ہو کہ ہمارا نصاب آج کے زمانے میں کیسا ہونا چاہئے۔ پروفیسر قاسمی نے کہاکہ شاہ ولی اللہ کے زمانہ تک مدارس میں ریاضی و طب پڑھائی جاتی تھی۔ مدارس اسلامیہ مل جل کر اس پر غور کریں کہ قرآن و حدیث کے تطابق سے مزید علوم کے دروازے کھولے جائیں۔ اگر مدارس میں طلب ہے تو یونیورسٹیاں رسد فراہم کرسکتی ہیں۔
چانکیہ لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے اپنے خطاب میں قانونی نکات کا ذکر کیا اور آرٹیکل 25، 28 اور 30 کے حوالے سے مفید معلومات فراہم کیں۔ انھوں نے کہاکہ سرکاری مدرسہ بورڈ پر خطرے منڈلا رہے ہیں، اس وقت ہم اپنا بورڈ بنائیں گے تو اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ انھوں نے قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مختلف پہلوؤں اور مواقع و مشکلات کا ذکر کیا۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے مولانا عبداللہ سعود نے بھی کہاکہ آج کے لحاظ سے نصاب تعلیم پر غور کریں اور ہر طرح کے فروعی اختلافات سے اٹھ کر منصوبہ بند نصاب تعلیم نافذ کریں۔ انھوں نے کہاکہ جامعہ سلفیہ عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، نصاب تعلیم پر ہر سال غور کیا جاتا ہے اور بقدر ضرورت تبدیلی کی جاتی ہے۔ حکومت ہند کی پالیسی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ قومی تعلیمی پالیسی میں بھی دکھائی دینا چاہئے۔
جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے مفتی بدر عالم مصباحی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مدارس کا اصل مقصد اسلامیات میں ایکسپرٹ پیدا کرنا ہے، مدارس کو علوم عصریہ سے ہم آہنگ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ مدارس پر دیگر علوم کا بار ڈالنا مناسب نہیں۔
مفتی عفان منصور پوری نے کہاکہ تعلیم دینی ہو یا دنیوی، دونوں ہی علم نافع ہیں۔ اللہ کے رسولؐ اسی علم نافع کی دعا کیا کرتے تھے۔ دونوں علم مطلوب ہیں۔ مدارس اسلامیہ عصری علوم کو داخل کرنا بقدر ضرورت قابل قبول ہے، البتہ مدارس کا اختصاص قائم رہنا چاہئے۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی نے کی۔