ETV Bharat / state

سپریم کورٹ میں اے ایم یو اقلیتی کردار کی سماعت مکمل

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 1, 2024, 9:54 PM IST

Hearing of AMU minority status سپریم کورٹ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی اقلیتی کردار سے متعلق سماعت آج آٹھویں روز مکمل ہو گئی ہیں۔ اب علیگ برادری کی نظریں فیصلے لگی ہوئی ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat

علیگڑھ: سپریم کورٹ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کیس کی سماعت آج آٹھویں روز مکمل ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات ججوں کی آئینی بنچ نے اے ایم یو کی اقلیتی کردار سے متعلق معاملات کی سماعت مکمل ہو گئی ہے۔ سات ججوں کی بینچ میں سی جے آئی، ڈی وائی چندرچوڑ، سی جے آئی، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چند شرما شامل ہیں۔ اے ایم یو کی جانب سے ایڈووکیٹ راجیو دھون، اے ایم یو الومنائی اسوسی ایشنس کی جانب سے ایڈووکیٹ کپل سبل اور سلمان خورشید اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑ رہے تھے۔

واضح رہے سپریم کورٹ نے گزشتہ روز اے ایم یو کو اقلیتی کردار سے متعلق جاری سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اقلیتی ادارے کو قومی اہمیت کا ادارہ ہونے میں کوئی حرج نہیں، سپریم کورٹ کے اس تبصرے کو خاص مانا جارہا ہے۔ سماعت کے دوران وکیل کی جانب سے سیاسی شخصیات پر کیے گئے تبصروں پر عدالت نے کہا کہ کسی سیاسی شخصیت پر تبصرہ نہ کیا جائے۔ قابل ذکر ہے کہ مرکز نے عدالت میں اپنی ایک تحریری دلیل میں کہا ہے کہ اے ایم یو ایک قومی ادارہ ہے، اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جانا چاہئے اب چاہیے اس یونیورسٹی کو کسی اقلیت نے قائم کیا ہو یا نہیں۔

سر سید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے جب انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج 8 جنوری 1877 میں قائم کیا تو ان کے خلاف فتوے دیے گئے۔ ان کا قتل کرکے ان کے بنائے گئے کالج کو منہدم کر دینے کی بھی بات کہی گئی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارا ہے لیکن اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلایا جانے والا ادارہ ہے اور اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔

واضح رہے اے ایم یو کے اقلیتی کردار اور اس کی سپریم کورٹ میں جاری سماعت سے متعلق سر سید اکیدمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں 24 جنوری کو بتایا "اگر سپریم کورٹ میں اے ایم یو کے اقلیتی کردار کا فیصلہ ایمانداری سے ہوا تو فیصلہ یقینا اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے حق میں ہوگا اور اگر اے ایم یو کی تاریخ اور اس کے اقلیتی کردار کی تاریخی حیثیت کو نظر انداز کرکے، جس طریقے سے الہ آباد ہائی کورٹ میں عزیز باشا کیس میں فیصلہ سنایا گیا اگر اسی انداز میں ججز نے موقف اختیار کیا تو پھر اے ایم یو کچھ نہیں کرسکتی اور اس ادارے کا اللہ ہی مالک ہوگا"

علیگڑھ: سپریم کورٹ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کیس کی سماعت آج آٹھویں روز مکمل ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات ججوں کی آئینی بنچ نے اے ایم یو کی اقلیتی کردار سے متعلق معاملات کی سماعت مکمل ہو گئی ہے۔ سات ججوں کی بینچ میں سی جے آئی، ڈی وائی چندرچوڑ، سی جے آئی، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چند شرما شامل ہیں۔ اے ایم یو کی جانب سے ایڈووکیٹ راجیو دھون، اے ایم یو الومنائی اسوسی ایشنس کی جانب سے ایڈووکیٹ کپل سبل اور سلمان خورشید اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑ رہے تھے۔

واضح رہے سپریم کورٹ نے گزشتہ روز اے ایم یو کو اقلیتی کردار سے متعلق جاری سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اقلیتی ادارے کو قومی اہمیت کا ادارہ ہونے میں کوئی حرج نہیں، سپریم کورٹ کے اس تبصرے کو خاص مانا جارہا ہے۔ سماعت کے دوران وکیل کی جانب سے سیاسی شخصیات پر کیے گئے تبصروں پر عدالت نے کہا کہ کسی سیاسی شخصیت پر تبصرہ نہ کیا جائے۔ قابل ذکر ہے کہ مرکز نے عدالت میں اپنی ایک تحریری دلیل میں کہا ہے کہ اے ایم یو ایک قومی ادارہ ہے، اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جانا چاہئے اب چاہیے اس یونیورسٹی کو کسی اقلیت نے قائم کیا ہو یا نہیں۔

سر سید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے جب انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج 8 جنوری 1877 میں قائم کیا تو ان کے خلاف فتوے دیے گئے۔ ان کا قتل کرکے ان کے بنائے گئے کالج کو منہدم کر دینے کی بھی بات کہی گئی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارا ہے لیکن اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلایا جانے والا ادارہ ہے اور اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔

واضح رہے اے ایم یو کے اقلیتی کردار اور اس کی سپریم کورٹ میں جاری سماعت سے متعلق سر سید اکیدمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں 24 جنوری کو بتایا "اگر سپریم کورٹ میں اے ایم یو کے اقلیتی کردار کا فیصلہ ایمانداری سے ہوا تو فیصلہ یقینا اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے حق میں ہوگا اور اگر اے ایم یو کی تاریخ اور اس کے اقلیتی کردار کی تاریخی حیثیت کو نظر انداز کرکے، جس طریقے سے الہ آباد ہائی کورٹ میں عزیز باشا کیس میں فیصلہ سنایا گیا اگر اسی انداز میں ججز نے موقف اختیار کیا تو پھر اے ایم یو کچھ نہیں کرسکتی اور اس ادارے کا اللہ ہی مالک ہوگا"

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.