ETV Bharat / state

126ویں برسی پر ماہر سر سید سے خصوصی گفتگو - Sir Syed 126th Death anniversary - SIR SYED 126TH DEATH ANNIVERSARY

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی اور جدید ہندوستان کے معمار سرسید احمد خان کے 126ویی یوم وفات کے موقع پر سر سید اکیدمی کے ڈائریکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے بتایا کہ ملک کے موجودہ صورتحال کے مد نظر ہمیں سر سید کے اس راستے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی ایسی صورتحال جو آپ کے لئے خوش گوار نہیں ہے اس سے کیسے نپٹے۔

126ویں برسی پر ماہر سر سید سے خصوصی گفتگو
126ویں برسی پر ماہر سر سید سے خصوصی گفتگو
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 27, 2024, 10:16 PM IST

126ویں برسی پر ماہر سر سید سے خصوصی گفتگو

علیگڑھ: ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بانی سرسید احمد خاں کا شمار جدید ہندوستان کے معماروں میں ہوتا ہے، بلکہ سرسید احمد خاں کو برصغیر کا محسن بھی کہا جاتا ہے۔ سرسید نے بھارتیوں اور بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں کی سر بلندی کے لیے ایک سو پچاس سال قبل جدید تعلیم کا جو خاکہ پیش کیا تھا، اس کی معنویت عہد حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔

سر سید کی 126ویی برسی پر ماہر سر سید اور اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے بتایا کہ سر سید کی آج ہی کے دن 126 برس قبل 27 مارچ 1898 کو وفات علی گڑھ میں ہوئی تھی، آپ کی نماز جنازہ ناظم دینیات مولوی عبداللہ نے اے ایم یو کے کرکٹ میدان میں ہوئی اور تدفین اے ایم یو جمع مسجد کے قریب۔ سرسید احمد خاں کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 میں دہلی کے ایک معزز خاندان میں ہوئی تھی۔

سر سید احمد خاں کے انتقال کے ایک دن بعد آپ کے صاحبزادے سید محمود کے کہنے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخی جامع مسجد کے قریب آپ کی تدفین کی گئی۔ سرسید احمد خاں کے انتقال کے 22 برس بعد جو آپ کی جدوجہد تھی ایک یونیورسٹی بنانے کی، وہ پہلی دسمبر 1920 میں پوری ہوئی. آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے قیام کا 104 سال مکمل کر رہا ہے۔ راحت ابرار نے مزید کہا سر سید نے جب یہ کالج قایم کیا تو انہوں نے کہا اس سے اصلی علوم اور دینی علوم کے فاصلے کو کم کیا جائے گا جس کے لئے کالج کے طلباء مدارس جا کر دینی تعلیم حاصل کریں گے اور مدارس کے طلباء کالج آکر جدید تعلیم حاصل کریں گے۔

معروف ادیب، ماہر سرسید اور سر سید اکیدمی کے ڈائریکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے بتایا سر سید نے جو تعلیم کی شمع روشن کی تھی اس سے نہ صرف علی گڑھ بلکہ دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں اس کا اجالہ پھیلا ہوا ہے اور ان کے تعلیمی مشن سے تقریبا تمام لوگ واقف ہو گئے ہیں آج کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو یہ کہہ کے تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ اس لئے اب ضرورت یہ ہے کہ ہمیں سر سید کی تعلیمی مشن کے ساتھ دیگر باتوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

پروفیسر شافع نے مزید کہا کہ صرف تعلیم سے ہی مصلہ حل نہیں ہوگا، اس وقت جو ملک کی موجودہ صورتحال ہے اس سے کیسے نپٹے، موجودہ صورتحال کے مد نظر ہمیں سر سید کے اس راستے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی ایسی صورتحال جو آپ کے لئے خوش گوار نہیں ہے اس سے کیسے نپٹے۔ سر سید نے اپنی زندگی میں عقلی تعبیر پر زور دیا تھا اور جذباتیت سے گریز کیا، اس پر ابھی بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی سر سید کے مشن کی کامیابی ہے۔ اس لئے ہم مسلمانوں کو جذباتیت سے گریز کرنا چاہئے اور عقل کو بروئے کار لائیں یہی مجھے لگتا ہے کہ سرسید کی تعلیم کا خاص ورثہ ہے۔

سرسید احمد خاں کے خوابوں کی تعبیر مسلم یونیورسٹی:
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمد خاں کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کو پوری دنیا میں ایک شناخت حاصل ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لیے سرسید احمد خاں نے ہر وہ ممکن کوشش کی اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کر سکتے تھے۔ علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں آٹھ اور دس فروری 1884 کو سرسید احمد خاں نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا تھا جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی، اتنا ہی نہیں سرسید نے علی گڑھ نمائش میں ہی ایک کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔

سید سید ہندوستان کو ایک دلہن اور ہندو مسلم اسکی دو آنکھیں مانتے تھے اگر ایک آنکھ کو تکلیف دی جائے دو دوسری کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور اگر ایک آنکھ کو خراب کردیا جائے تو اس کی خوبصورتی کم ہوجائے گی۔ سرسید احمد خاں نے اس ادارے کے قیام کے لیے جو بھی ممکن طریقے ہو سکتے تھے وہ سب اپنائے اور انہوں نے چوبیس مئی 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس مہم کا آغاز کیا تھا جب کہ سال 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا حالانکہ سرسید کے انتقال سال 1898 میں ہوا تھا اس کے بائیس برس بعد سنہ 1920 میں مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ سرسید احمد خاں کو آج پوری دنیا ان کے علمی اور فکری کارناموں کے سبب خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔

126ویں برسی پر ماہر سر سید سے خصوصی گفتگو

علیگڑھ: ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بانی سرسید احمد خاں کا شمار جدید ہندوستان کے معماروں میں ہوتا ہے، بلکہ سرسید احمد خاں کو برصغیر کا محسن بھی کہا جاتا ہے۔ سرسید نے بھارتیوں اور بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں کی سر بلندی کے لیے ایک سو پچاس سال قبل جدید تعلیم کا جو خاکہ پیش کیا تھا، اس کی معنویت عہد حاضر کی ضرورت بن گئی ہے۔

سر سید کی 126ویی برسی پر ماہر سر سید اور اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے بتایا کہ سر سید کی آج ہی کے دن 126 برس قبل 27 مارچ 1898 کو وفات علی گڑھ میں ہوئی تھی، آپ کی نماز جنازہ ناظم دینیات مولوی عبداللہ نے اے ایم یو کے کرکٹ میدان میں ہوئی اور تدفین اے ایم یو جمع مسجد کے قریب۔ سرسید احمد خاں کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 میں دہلی کے ایک معزز خاندان میں ہوئی تھی۔

سر سید احمد خاں کے انتقال کے ایک دن بعد آپ کے صاحبزادے سید محمود کے کہنے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخی جامع مسجد کے قریب آپ کی تدفین کی گئی۔ سرسید احمد خاں کے انتقال کے 22 برس بعد جو آپ کی جدوجہد تھی ایک یونیورسٹی بنانے کی، وہ پہلی دسمبر 1920 میں پوری ہوئی. آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے قیام کا 104 سال مکمل کر رہا ہے۔ راحت ابرار نے مزید کہا سر سید نے جب یہ کالج قایم کیا تو انہوں نے کہا اس سے اصلی علوم اور دینی علوم کے فاصلے کو کم کیا جائے گا جس کے لئے کالج کے طلباء مدارس جا کر دینی تعلیم حاصل کریں گے اور مدارس کے طلباء کالج آکر جدید تعلیم حاصل کریں گے۔

معروف ادیب، ماہر سرسید اور سر سید اکیدمی کے ڈائریکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے بتایا سر سید نے جو تعلیم کی شمع روشن کی تھی اس سے نہ صرف علی گڑھ بلکہ دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں اس کا اجالہ پھیلا ہوا ہے اور ان کے تعلیمی مشن سے تقریبا تمام لوگ واقف ہو گئے ہیں آج کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو یہ کہہ کے تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ اس لئے اب ضرورت یہ ہے کہ ہمیں سر سید کی تعلیمی مشن کے ساتھ دیگر باتوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

پروفیسر شافع نے مزید کہا کہ صرف تعلیم سے ہی مصلہ حل نہیں ہوگا، اس وقت جو ملک کی موجودہ صورتحال ہے اس سے کیسے نپٹے، موجودہ صورتحال کے مد نظر ہمیں سر سید کے اس راستے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی ایسی صورتحال جو آپ کے لئے خوش گوار نہیں ہے اس سے کیسے نپٹے۔ سر سید نے اپنی زندگی میں عقلی تعبیر پر زور دیا تھا اور جذباتیت سے گریز کیا، اس پر ابھی بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی سر سید کے مشن کی کامیابی ہے۔ اس لئے ہم مسلمانوں کو جذباتیت سے گریز کرنا چاہئے اور عقل کو بروئے کار لائیں یہی مجھے لگتا ہے کہ سرسید کی تعلیم کا خاص ورثہ ہے۔

سرسید احمد خاں کے خوابوں کی تعبیر مسلم یونیورسٹی:
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمد خاں کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کو پوری دنیا میں ایک شناخت حاصل ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لیے سرسید احمد خاں نے ہر وہ ممکن کوشش کی اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کر سکتے تھے۔ علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں آٹھ اور دس فروری 1884 کو سرسید احمد خاں نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا تھا جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی، اتنا ہی نہیں سرسید نے علی گڑھ نمائش میں ہی ایک کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔

سید سید ہندوستان کو ایک دلہن اور ہندو مسلم اسکی دو آنکھیں مانتے تھے اگر ایک آنکھ کو تکلیف دی جائے دو دوسری کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور اگر ایک آنکھ کو خراب کردیا جائے تو اس کی خوبصورتی کم ہوجائے گی۔ سرسید احمد خاں نے اس ادارے کے قیام کے لیے جو بھی ممکن طریقے ہو سکتے تھے وہ سب اپنائے اور انہوں نے چوبیس مئی 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس مہم کا آغاز کیا تھا جب کہ سال 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا حالانکہ سرسید کے انتقال سال 1898 میں ہوا تھا اس کے بائیس برس بعد سنہ 1920 میں مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ سرسید احمد خاں کو آج پوری دنیا ان کے علمی اور فکری کارناموں کے سبب خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.