لکھنو: پریس کلب لکھنو میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈ یا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے چیرمین پرسنل لا بورڈ مولانا سید صائم مہدی نے کہا کہ شیعہ فرقے پر مختلف قسم کے حملے ہور ہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ میں اس کی وضاحت کروں میرے پاس مختلف مقامات سے طلاق کے مسئلہ آتے ہیں۔ زبانی طور پر طلاق کہہ دینے سے شیعہ فرقے میں مرد ہو یا عورت طلاق کہہ دینے سے طلاق نہ ہو گا۔ مذہب شیعہ میں نکاح میں دو عالم طلاق میں ایک عالم دین بطور وکیل اور دو گواہ جس کی موجودگی میں طلاق ہو تب طلاق واقع ہوتی ہے، صرف مرد یا عورت کے طلاق طلاق طلاق کہہ دینے سے طلاق نہیں ہوگی۔ یہ قانون اس لیے ہے تاکہ لوگ اپنے فائدے کے لیے مذہب کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔
چونکہ عام طور پر لوگوں کو مذہب کی مکمل جانکاری نہیں ہوتی ہے۔ لہذا قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ غلط بیانی سے کام کرتے ہیں۔ لہذا میں عوام کو اور اپنی حکومت اور ماہرین قوانین کو اس سے مطلع کرتا ہوں کہ آئین ہند کے مطابق ہر ہندوستانی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے، لہذا کسی بھی مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔
مولانا نے مزید کہا کہ ایک اعتراض یہ بھی ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ زیادتی کی ہے، کیونکہ طلاق کے بعد اس کے اخراجات کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ مولانا نے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ اسلام کے بارے میں پوری جانکاری حاصل کریں۔ اسلام نے لڑکی کو ماں باپ کی میراث میں حصہ دیا ہے۔
تاکہ شوہر کے ساتھ نہ بننے کی صورت میں وہ اپنی زندگی کو آسانی کے ساتھ بسر کر سکے۔ اسی طرح اگر عورت کو والدین کی میراث مل جاتی ہے تو سسرال میں اس کا اثر اچھا پڑے گا۔ عین ممکن ہے کہ طلاق جیسے بدنما واقعات جلد سامنے نہ آئیں۔ اور اگر طلاق ہو بھی جاتی ہے تو عدت کے بعد لڑ کی اپنی ملی ہوئی میراث سے اپنی زندگی آسانی سے گزار سکے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان شیعہ نسل کشی بند کرے، لکھنو میں احتجاجی مظاہرہ
مولانا نے اس سلسلہ میں اپنی قوم سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ زمانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے میراث کے حکم پر ضرور عمل کریں۔ خاص طور پر لڑکیوں کے بھائیوں کو اپنی بہنوں کا شرعی حق جو شریعت نے ماں باپ کے گزر جانے کے بعد دیا ہے، اس کو ضرور ادا کریں، جس سے یہ طلاق کا مسئلہ کسی حد تک کم ہو جائے۔