نئی دہلی: شمال مشرقی دہلی میں سال 2020 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کو چار سال مکمل ہونے کو ہیں۔ ایسے میں جو حالات فسادات کے بعد شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں ہو گئے تھے وہ اب تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ جو نفرت سیاسی جماعتوں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں پروئی گئی تھی وہ اب ختم ہوتی جا رہی ہے اور حالات میں مزید بہتری آ چکی ہے۔
ان چار سالوں میں جو تبدیلیاں شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں دیکھنے کو ملیں ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو نفرت عوام کے دلوں میں پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی اس میں سیاسی جماعتیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جو لوگ علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جاکر کاروبار کرنے پر مجبور ہو چکے تھے اب وہ واپسی کر چکے ہیں۔
اسی سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے شمال مشرقی دہلی میں ان لوگوں سے بات کی جنہوں نے دہلی فسادات میں لوگوں کے گھروں کو اجڑتے اور پھر سے بستے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
جعفرآباد کے رہنے والے ڈاکٹر فہیم بیگ نے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شمال مشرقی دہلی میں کئی سالوں سے دونوں ہی مذاہب کے لوگ پر امن زندگی گزارتے جارہے ہیں۔ چار سال پہلے بھی نفرت کسی کے دل میں موجود نہیں تھی لیکن جس طرح سے سیاسی جماعتوں نے نفرت کا کھیل کھیلنا شروع کیا اور ایک خاص طبقے کے خلاف زہر افشانی تقاریر کی اس سے علاقے میں حالات خراب ہوئے۔
ان کے مطابق نہ تو پہلے لوگوں کے دلوں میں نفرت تھی اور نہ اب نفرت باقی ہے۔ پہلے بھی لوگ مل جل کر رہا کرتے تھے اور اب بھی لوگ مل جل کر ہی رہتے ہیں۔ تاہم درمیان میں کچھ لوگوں نے مذہب کی بنیاد پر انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے نفرت پھیلائی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن یہ کامیابی بہت تھوڑے وقفہ کے لیے وقت ہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:قوم کو تعلیم کے زیور سے اراستہ کرنا نہایت ضروری: شاہین گروپ
وہیں جمعیت علماء ہند میں دینی تعلیمی بورڈ کے صدر مولانا داؤد امینی نے بتایا کہ گزشتہ چار برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ فسادات کے بعد حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ لوگ ایک دوسرے کے محلے سے گزرنے میں کتراتے تھے۔ انہیں اس بات کا خوف تھا کہ کہیں ان کے ساتھ کچھ غلط نہ ہو جائے ۔لیکن یہ نفرت دھیرے دھیرے کم ہوئی ۔ اب حالات اتنے بہتر ہو چکے ہیں کہ دونوں مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔