گیا: بہار میں وزیر اعلی نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کی جیت میں مسلم ووٹروں نے اہم کردار اداکیا ہے۔ جے ڈی یو اور ہم پارٹی کے مسلم و غیر مسلم رہنماء بھی اس بات کا اعتراف کررہے ہیں۔ جے ڈی یو نے 12 نشستوں پر جیت درج کی ہے۔ حالانکہ انتخاب سے قبل سیاسی گلیاروں میں بحث تھی اور سیاسی مبصرین کا بھی کہنا تھا کہ بہار میں بی جے پی اپنی سبھی سیٹوں کو بچانے میں کامیاب ہوگی۔
جبکہ این ڈی اے میں صرف جے ڈی یو کا بڑا نقصان ہوگا۔ لیکن جے ڈی یو پارٹی نے اپنی بہترین کارکردگی سے سب کوحیران کردیا۔ بالکل ایگزٹ پول کی طرح بہار میں یہ قیاس آرائی زمیں بوس ہوگئی۔ اب سیاسی مبصرین اور رہنماوں کا مانناہے کہ اس جیت میں مسلمانوں کا بڑا اہم کردار ہے۔ اس میں وجہ کئی ہیں، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیراعلی نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے ہی انتخابی جلسے میں مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ ہی جے پی کے ساتھ رہکر بھی انہوں نےبہار میں مسلمانوں کے مسائل کو حل کیا۔
گویا کہ انہوں نے واضح اشارہ کردیا تھا کہ وہ کہیں بھی رہیں اپنی شرطوں پررہتے ہیں۔ جبکہ ایک خاص وجہ یہ بھی یے کہ بہار میں آر جے ڈی اور تیجسوی یادو کا رویہ اور مسلم قیادت کو پورے انتخابی تشہیر کے دوران نظرانداز کرنا بھی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی جگہوں پر مسلمانوں کا 50 فیصد تک ووٹ آر جے ڈی کو نہیں پڑا جس میں سیوان اور پورنیہ بھی شامل ہے۔ اس حوالہ سے وزیراعلی صلاح کار کمیٹی کے ممبر اور سنیئر رہنماء مولانا عمر نورانی سے' ای ٹی وی بھارت اردو' نے بات کی۔
نورانی نے دوران گفتگو کہا کہ مسلمان اب سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتا ہے۔ سبھی کو معلوم ہے کہ این ڈی اے میں رہتے ہوئے نتیش کمار نے بہار میں این آر سی نہیں کرانے کو لیکر اسمبلی میں بل پاس کروایا، مخالفت کے باوجود بی جے پی کچھ نہیں کرسکی۔ انہوں نے کہاکہ کسی ایک پارٹی کی حکومت اور اتحاد کی حکومت کے معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ وزیر اعلی نتیش کمار نے جو یہاں پر بات کہی تھی کہ ہم جس اتحاد میں رہیں گے چاہے وہ اتحاد ریاستی سطح پر ہو یا پھر دلی مرکز کا ہو، اس میں مسلمانوں کو اپنے معاملات کے بارے میں کسی طرح سے فکر نہیں کرنی ہے، کیونکہ وہ ترقی اور معاشرے کے ہر فرقے اور برادری کے فلاح کے لیے کام کرتے ہیں ، کرپشن کمیونلزم اور کرائم سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج ہی پارٹی کا واضح موقف سامنے آگیا ہے کہ وہ این ڈی اے میں اپنے نظریہ اور اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے، یو سی سی اور اگنی ویر اسکیم میں نظرثانی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یک طرفہ فیصلے نہیں ہونگے بلکہ ملکی سطح پر کسی متنازع معاملوں میں سبھی ریاستوں اور اتحاد و حکومتوں سے مشورے اور متفقہ فیصلے سے ہی کوئی کام ہوگا۔
جہاں تک مسلمانوں کے ووٹ دینے کی بات ہے تو وہ اس بات کو یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ اس بار مسلمانوں کی خاصی فیصد نے جے ڈی یو کو ووٹ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی تشہیر کے دوران انہوں نے خود 12 پارلیمانی نشستوں کے سینکڑوں کا دورہ کیا ہے، مسلمانوں کا جے ڈی یو کے تئیں اچھا نظریہ رہا ۔
یہ بھی پڑھیں:انڈیا یا این ڈی اے، نتیش کمار کس کو سپورٹ کریں گے؟، 'کنگ میکر' پر بنائی گئیں مضحکہ خیز فلمی میمز
اگر لوک سبھا میں پچاس فیصد جے ڈی یو کے حق ووٹنگ نہیں ہوئی گی یہ کہا جاسکتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی خاصی تعداد نے ووٹ نہیں کیا ہے۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر کشن گنج میں جے ڈی یو کے اُمیدوار کو اتنا ووٹ کہاں سے ملا ؟۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ وہاں جیت نہیں ملی لیکن انکی ہار بھی کوئی بڑے فاصلے سے نہیں ہوئی، کٹیہار اور پورنیہ بھی اسکی مثال ہے۔ پورنیہ میں تو آر جے ڈی کی ضمانت ضبط ہے۔ اگر آر جے ڈی سے اتنی ہمدردی ہوتی تو پھر وہاں تو بيما بھارتی کا ووٹ زیادہ ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دویش چندر ٹھاکر کو بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا ہے .
متنازع مسائل پر ذکر برداشت نہیں
جے ڈی یو کے قومی رہنما اور ترجمان کے سی تیاگی نے آج ہی بیان دیا کہ جے ڈی یو یوسی سی اور اگنی ویر اسکیم پر پھر جائزہ لینے کے حق میں ہے۔ متنازع مسائل یا تشدد اور نفرت انگیز معامولوں کو برداشت نہیں کیا جاناہے۔ این ڈی اے کی حکومت اس پر قدغن لگانے کی اہل ہوگی، انصاف کا پیمانہ ہرگز نہیں ٹوٹے اس کا خیال رکھنا ہوگا، لوگوں میں ناراضگی کیا ہے اسے حکومت کو سمجھنا ہے۔ امتیازی رویہ ناقابل برداشت ہے
اسمبلی انتخابات میں بھی ملے گا ساتھ
اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر ساتھ ملے گا۔ عمر نورانی نے کہا کہ انہوں نے کئی گاؤں علاقے کا دورہ کیا ہے۔ جو پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کی وجہ کر ووٹ جے ڈی یو کو نہیں دیا، ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو کو ہی ووٹ کریں گے۔ کیونکہ وہ بہار میں ترقی، امن بھائی چارگی چاہتے ہیں۔
کیونکہ مرکز میں کئی ایسے معاملے بی جے پی کی طرف سے پیش آئے جس کے سبب مسلمانوں کی بڑی تعداد این ڈی اے میں جانا نہیں چاہتی، لیکن پھر بھی مسلمانوں نے یہاں جے ڈی یو کو ووٹ دیا ہے۔ اسمبلی انتخابات میں ووٹنگ فیصد مزید بڑھ جائے گی۔ نورانی کا ماننا ہے کہ پارلیمانی انتخاب میں جے ڈی یو کو مسلمانوں کا 30 فیصد ووٹ ملا ہے