ETV Bharat / state

مدارس اسلامیہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شہ رگ کی مانند: مفتی نظام الدین - Indian Muslims

Islamic Schools in India: دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی مفتی نظام الدین قادری نے کہا کہ مدارس اسلامیہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شہ رگ کی مانند ہیں۔ وہیں مفتی خالد ایوب شیرانی نے کہا کہ محسنِ انسانیت رسول اللہ ﷺ سے بہتر کوئی معلم ہے نہ مربی ہے۔

Madrasa Islamia are like an aorta for Indian Muslims: Mufti Nizamuddin
Madrasa Islamia are like an aorta for Indian Muslims: Mufti Nizamuddin
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 19, 2024, 12:29 PM IST

لکھنؤ: پوری انسانی تاریخ یعنی حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آخری عہد تک ہزاروں سال طویل عرصہ میں انسان وہ ترقی نہ کر سکا، عروج و ارتقا کی وہ منزلیں نہ طے کر سکا جو آمنہ کے لال، عبداللہ کے نور نظر اور بنی نوع انسانیت کے محسن اعظم محمد بن عبداللہﷺ کے اس کرۂ ارض پر تشریف لانے کے بعد لوگوں نے حاصل کی۔ حالانکہ انسان یہی تھے صلاحیتیں بھی یہی تھیں، ضرورتیں بھی اپنے دور اور زمانہ کے مطابق ہی رہیں۔ اس لیے کہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی معلم ہے نہ مربی۔ جیسا کہ ایک عمومی خطاب میں اللہ عزوجل نے فرمایا " لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ" مذکورہ بالا خیالات کا اظہار جے پور کے مہمان خصوصی مولانا خالد ایوب شیرانی مصباحی نے فرمایا۔ وہ آج یہاں مدرسہ حنفیہ چشتیہ عزیز نگر لکھنؤ کے سالانہ جلسہ دستار بندی جشن معلم کائنات میں خطاب کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:

مدرسہ حنیفہ لکھنؤ کے طالب علم نے قراءت مقابلے میں اول مقام حاصل کیا
انہوں نے تعلیم کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ اکیلے ہمارے وطن عزیز بھارت میں لگ بھگ 21 سو یونیورسٹیاں ہیں جب کہ پورے اسلامی ممالک (جن کی تعداد 57 ہے) میں تقریباََ 700 یونیورسٹیاں ہیں۔ اس اعداد وشمار سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کے میدان میں ہماری دلچسپی کا گراف کتنا ڈاؤن ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم وتعلم کے حوالہ سے یہ بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ پڑھائی لکھائی جو بھی ہو اس میں رب کی ربوبیت کا تصور ضروری ہے ورنہ انسان اپنی عقل و دماغ اور ذہنی صلاحیتوں کا استعمال بجائے انسانی تعمیر کے انسانیت کے بگاڑ اور فساد کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ جیسا کہ پہلی وحی" اقرا باسم ربک الذی خلق الخ "سے بھی اس جانب واضح اشارہ ملتا ہے۔
اس پروگرام کے دوسرے مہمان خصوصی مفتی محمد حنیف برکاتی نے قرآن کی عظمت اور قلم کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں قلم کی بڑی اہمیت ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں ایک مکمل سورت اسی نام سے موسوم ہے، لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہماری قوم کے جن جوانوں کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہیے ان ہاتھوں میں موبائل ہے جس سے ان کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں۔ قلم کی اہمیت اتنی ہے کہ جب قلم سنورتا ہے تو نسلیں سنور جاتی ہیں اور جب قلم بے لگام ہوجاتا ہے تو نسلیں بگڑ جاتی ہیں۔
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی کے حضرت مفتی نظام الدین قادری نے بھی اپنے مختصر خطاب میں موجودہ حالات کے پیش نظر مدارس کی اہمیت وافادیت پر بہترین روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا مدارس اسلامیہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شہ رگ کی مانند ہیں۔ یہ مدارس ہماری شناخت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ہماری تمام دینی مذہبی ضرورتیں یہیں سے پوری ہوتی ہیں۔ اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان کے فروغ و استحکام کے لیے ہر ممکن کوشش بروئے کار لائیں۔
آج کا یہ پروگرام دو مرحلوں پر مشتمل تھا پہلا مرحلہ بعد نماز مغرب سے عشاء تک اور دوسرا نماز عشاء سے رات 11 بجے تک۔ دوسرے مرحلے کا آغاز قاری شاہ جہاں نے تلاوت کلام اللہ سے کیا۔ ڈاکٹر رضوان الرضا رضوان اور قاری معصوم نے نعت ومنقبت کے نذرانے پیش کیے۔ پروگرام کی سرپرستی حضرت سید شعیب العلیم بقائی اور صدارت مفتی نفیس احمد مصباحی نے کی جب کہ مولانا محمد حسیب خان مصباحی نے نظامت کی۔
آخر میں ادارہ سے فارغ ہونے والے حفاظ کی رسم دستار بندی بھی ادا کی گئی۔ 11 طلبا کو حفظ قرآن کی سند سے نوازا گیا۔ اس موقع پر ایک نجی ٹور کمپنی کی جانب سے ایک طالب علم محمد ارمان رضا کو عمرہ پر بھیجنے کا اعلان بھی ہوا۔ ساتھ ہی بانیٔ ادارہ حضرت قاری محمد احمد بقائی نے ایک دوسرے طالب علم محمد مستقیم لکھیم پوری کو اجمیر شریف کی زیارت کرانے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ اس ہونہار طالب علم نے ایک نشست میں پورا قرآن سنانے کی سعادت حاصل کی ہے۔
بقائی نے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد مفتی نفیس احمد مصباحی کی دعا پر محفل کا اختتام ہوا۔ شہر کے ذمہ داران مدارس وائمۂ مساجد کی خاصی تعداد نے شرکت کی۔ بطور خاص سید اقبال ہاشمی، نبی احمد بقائی، ظفر اقبال، مختار احمد، ڈاکٹر خطیب، مقصود احمد، محمد سلیم، طلحہ علوی، ڈاکٹر عرفان و دیگر نے شرکت کی۔

لکھنؤ: پوری انسانی تاریخ یعنی حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آخری عہد تک ہزاروں سال طویل عرصہ میں انسان وہ ترقی نہ کر سکا، عروج و ارتقا کی وہ منزلیں نہ طے کر سکا جو آمنہ کے لال، عبداللہ کے نور نظر اور بنی نوع انسانیت کے محسن اعظم محمد بن عبداللہﷺ کے اس کرۂ ارض پر تشریف لانے کے بعد لوگوں نے حاصل کی۔ حالانکہ انسان یہی تھے صلاحیتیں بھی یہی تھیں، ضرورتیں بھی اپنے دور اور زمانہ کے مطابق ہی رہیں۔ اس لیے کہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی معلم ہے نہ مربی۔ جیسا کہ ایک عمومی خطاب میں اللہ عزوجل نے فرمایا " لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ" مذکورہ بالا خیالات کا اظہار جے پور کے مہمان خصوصی مولانا خالد ایوب شیرانی مصباحی نے فرمایا۔ وہ آج یہاں مدرسہ حنفیہ چشتیہ عزیز نگر لکھنؤ کے سالانہ جلسہ دستار بندی جشن معلم کائنات میں خطاب کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:

مدرسہ حنیفہ لکھنؤ کے طالب علم نے قراءت مقابلے میں اول مقام حاصل کیا
انہوں نے تعلیم کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ اکیلے ہمارے وطن عزیز بھارت میں لگ بھگ 21 سو یونیورسٹیاں ہیں جب کہ پورے اسلامی ممالک (جن کی تعداد 57 ہے) میں تقریباََ 700 یونیورسٹیاں ہیں۔ اس اعداد وشمار سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کے میدان میں ہماری دلچسپی کا گراف کتنا ڈاؤن ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم وتعلم کے حوالہ سے یہ بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ پڑھائی لکھائی جو بھی ہو اس میں رب کی ربوبیت کا تصور ضروری ہے ورنہ انسان اپنی عقل و دماغ اور ذہنی صلاحیتوں کا استعمال بجائے انسانی تعمیر کے انسانیت کے بگاڑ اور فساد کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ جیسا کہ پہلی وحی" اقرا باسم ربک الذی خلق الخ "سے بھی اس جانب واضح اشارہ ملتا ہے۔
اس پروگرام کے دوسرے مہمان خصوصی مفتی محمد حنیف برکاتی نے قرآن کی عظمت اور قلم کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں قلم کی بڑی اہمیت ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں ایک مکمل سورت اسی نام سے موسوم ہے، لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہماری قوم کے جن جوانوں کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہیے ان ہاتھوں میں موبائل ہے جس سے ان کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں۔ قلم کی اہمیت اتنی ہے کہ جب قلم سنورتا ہے تو نسلیں سنور جاتی ہیں اور جب قلم بے لگام ہوجاتا ہے تو نسلیں بگڑ جاتی ہیں۔
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی کے حضرت مفتی نظام الدین قادری نے بھی اپنے مختصر خطاب میں موجودہ حالات کے پیش نظر مدارس کی اہمیت وافادیت پر بہترین روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا مدارس اسلامیہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شہ رگ کی مانند ہیں۔ یہ مدارس ہماری شناخت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ہماری تمام دینی مذہبی ضرورتیں یہیں سے پوری ہوتی ہیں۔ اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان کے فروغ و استحکام کے لیے ہر ممکن کوشش بروئے کار لائیں۔
آج کا یہ پروگرام دو مرحلوں پر مشتمل تھا پہلا مرحلہ بعد نماز مغرب سے عشاء تک اور دوسرا نماز عشاء سے رات 11 بجے تک۔ دوسرے مرحلے کا آغاز قاری شاہ جہاں نے تلاوت کلام اللہ سے کیا۔ ڈاکٹر رضوان الرضا رضوان اور قاری معصوم نے نعت ومنقبت کے نذرانے پیش کیے۔ پروگرام کی سرپرستی حضرت سید شعیب العلیم بقائی اور صدارت مفتی نفیس احمد مصباحی نے کی جب کہ مولانا محمد حسیب خان مصباحی نے نظامت کی۔
آخر میں ادارہ سے فارغ ہونے والے حفاظ کی رسم دستار بندی بھی ادا کی گئی۔ 11 طلبا کو حفظ قرآن کی سند سے نوازا گیا۔ اس موقع پر ایک نجی ٹور کمپنی کی جانب سے ایک طالب علم محمد ارمان رضا کو عمرہ پر بھیجنے کا اعلان بھی ہوا۔ ساتھ ہی بانیٔ ادارہ حضرت قاری محمد احمد بقائی نے ایک دوسرے طالب علم محمد مستقیم لکھیم پوری کو اجمیر شریف کی زیارت کرانے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ اس ہونہار طالب علم نے ایک نشست میں پورا قرآن سنانے کی سعادت حاصل کی ہے۔
بقائی نے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد مفتی نفیس احمد مصباحی کی دعا پر محفل کا اختتام ہوا۔ شہر کے ذمہ داران مدارس وائمۂ مساجد کی خاصی تعداد نے شرکت کی۔ بطور خاص سید اقبال ہاشمی، نبی احمد بقائی، ظفر اقبال، مختار احمد، ڈاکٹر خطیب، مقصود احمد، محمد سلیم، طلحہ علوی، ڈاکٹر عرفان و دیگر نے شرکت کی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.