لکھنؤ (اترپردیش): یہ اکبر نگر سے آئے بسنت کنج یوجنا میں رہائشی وہ بچے ہیں جو پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں کلاس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جشن ازادی ہے بچے اکبر نگر کے اسکول کو یاد کر رہے ہیں جہاں وہ پہلے تعلیم حاصل کرنے جایا کرتے تھے لیکن اب تقریبا تین ماہ کا فاصلہ گزر چکا ہے کہ یہ بچے اسکول نہیں جاسکے ہیں اور اسکول سے کوئی رابطہ نہیں ہے کیونکہ بسنت کنج کے اطراف میں کوئی اسکول نہیں ہے۔
ان بچوں کی طرح بسنت کنج میں تقریبا پانچ ہزار ایسے بچے ہیں جن کے تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے کچھ سماجی کارکنان اپنے گھروں میں ہی بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ یہ ہیں بشریٰ، جو لکھنو کے اکبر نگر میں اپنا اسکول چلاتی تھیں اور تقریبا 100 بچوں کو تعلیم دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ ان کی نواسی سعدیہ رحمان بھی بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھیں۔
بشرا کو بسنت کنج یوجنا میں ایک فلیٹ ملا ہے بشرا نے اپنا سامان نہیں لایا ہے تاکہ بچوں کے تعلیم کے لیے جگہ باقی رہے۔بشرا کی ٹیم میں مزید تین خواتین ہیں جو اس علاقے میں بچوں کو مفت تعلیم دے رہی ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بشریٰ نے بتایا کہ ہمارے گھر میں 13 افراد ہیں اور مجھے ایک فلیٹ ملا ہے۔ یہ فلیٹ 250 اسکوائر فٹ پر مشتمل ہے جس میں دو کمرے ہیں۔ ہم نے صرف اپنی ضروریات کا سامان یہاں پر لائے ہیں مثلا چار جوڑے کپڑے اور کچن کا سامان۔
اس کے علاوہ ہم نے اپنے گھر سے کوئی سامان نہیں لایا تاکہ بچوں کے لیے بیٹھنے کے لیے یہاں جگہ ہو۔ بشریٰ کہتی ہیں کہ بچوں کو میں مفت تعلیم دیتی ہوں اور میرا شوق ہے کہ میں بچوں کو ہمیشہ تعلیم دیتی رہوں۔ میری بھتیجی سعدیہ رحمان بھی بچوں کو پڑھاتی ہے ہمیں فکر یہ ہے کہ ان بچوں کا مستقبل کیا ہوگا کیونکہ یہاں نہ کوئی سرکاری اسکول ہے اور نہ ہی قرب و جوار میں کوئی دیگر نجی اسکول۔
انہوں نے کہا کہ ایسے پانچ ہزار بچوں کے سامنے سوال ہے کہ وہ اپنا مستقبل کیسے بنائیں گے اور تعلیم کیسے حاصل کریں گے بشریٰ خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ کہیں یہ بچے غلط ہاتھوں نہ لگ جائیں۔
وہیں سماجی کارکن عمران راجہ بتاتے ہیں کہ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہمیں زمین دے دیں اور ہم اجتماعی فنڈنگ کر کے اسکول بنوا کر کے یہاں کے بچوں کو تعلیم دلوانے کا کام کریں گے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ علاقہ بچوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے یہ جنگل کا علاقہ ہے یہاں بچوں کو تنہا اسکول جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لہذا اسی علاقے میں اسکول بنانا چاہیے تاکہ یہاں کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اگرچہ اکبر نگر کے رہائشیوں کو یہاں آباد کیا ہے لیکن ان کی ضروریات کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ یہاں پر نہ ہی کوئی طبی سہولت ہے نہ ہی کاروبار کے لیے کوئی خاص موزوں جگہ ہے اور نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوئی اسکول ہے۔ حکومت سے ہم مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت ہمارے ان مطالبات کو پورا کرے تاکہ ہزاروں لوگوں کی تعلیمی اور دیگر ضروریات کو بھی پورا ہوسکے۔
واضح رہے کہ لکھنؤ کے اکبر نگر کو دو ماہ قبل لکھنو مونسپل کارپوریشن اور لکھنو ڈپلومینٹ اتھارٹی نے غیر قانونی تجاوزات اور تعمیرات کہہ کر کے تقریبا 20 ہزار کی آبادی والے علاقے کو زمین دوز کر دیا اب اس علاقے میں رہنے والے افراد دبگہ کے علاقے میں رہ رہے ہیں جہاں ان کو وزیراعظم رہائش گاہ اسکیم کے تحت بسنت کنج میں فلیٹ دیا گیا ہے۔ یہاں پر تقریبا 22 ہزار لوگوں کو آباد کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: