حیدرآباد: حیدرآباد کے تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے ساتھ اُسے عالمی سطح پر نمایاں کرنے اور دنیا کے مختلف ممالک سے حیدرآباد آنے والے سیاحوں کو اس ورثے سے متعلق معلومات کی فراہمی کے عزائم کے ساتھ آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر نے حکومت تلنگانہ اور قلی قطب شاہ ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت قطب شاہی ہیریٹیج پارک میں واقع 500 سالہ قدیم تاریخی عمارتوں کی عظمت کو بحال کرنے اس کے باغات کو دوبارہ سرسبز و شاداب کرنے کے پراجیکٹ کی تکمیل کی گئی ہے۔ جس میں گنبدان، باغوں اور 13 بند باؤلیوں کے تعمیراتی کام مکمل ہوچکے ہیں۔ گنبدان قطب شاہی کی تزئین کاری کے کام مکمل ہونے پر ایک تقریب کا اہتمام عمل میں لایا گیا۔ جس میں وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی اور اسد الدین اویسی کے علاوہ کئی بڑے مہمانوں نے شرکت کی، صدر مجلس بیرسٹر اویسی نے آغا خان ٹرسٹ اور وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی کا شکریہ ادا کیا۔
قطب شاہی ہیریٹیج پارک میں انڈر گراؤنڈ میوزیم کا قیام
گنبدان قطب شاہی کے قریب واقع قطب شاہی ہیریٹیج پارک میں انڈر گراؤنڈ میوزیم بھی قائم کیا جارہا ہے۔ جس میں وہ تمام تاریخی نوعیت کے نوادرات کو سیاحوں، اسکالرس کے علاوہ شوقین افراد کے لیے نمائش کی جائے گی۔ گنبدان قطب شاہی فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ گزشتہ 500 برس کے دوران موسمی اثرات کے علاوہ نگہداشت میں کوتاہی کی وجہ سے ان تاریخی عمارتوں کی مختلف اشیاء کو نقصان پہنچا، جنہیں دوبارہ اس کی اصل حالت اور شکل میں انہیں اس میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ حیدرآباد سیاحت کے عالمی نقشہ پر نمایاں، گنبدانِ قطب شاہی کی عظمت بحال کرنے کی کوشش کیے جانے کے موقع پر میڈیا نمائندوں کو پراجکٹ کی تفصیلات اور مختلف تاریخی مقامات کے معائنہ کروانے کے بعد انہوں نے بتایا کہ یہ میوزیم اپنی نوعیت کا منفرد ہوگا جس میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ قطب شاہی دور کی یاد دلائی جائے۔
حیدرآباد میں سینکڑوں تاریخی عمارتیں
قطب شاہی ہیریٹیج پارک میں لگ بھگ ایک سو تاریخی عمارتیں ہیں۔ اس کے ایک حصہ میں دکن پارک بھی ہے۔ ہندوستان کے سب سے وسیع و عریض تاریخی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے 2013ء میں ریاستی حکومت کے ڈپارٹمنٹ آف ہریٹیج اور قلی قطب شاہ ڈیولپمنٹ اتھاریٹی اور آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کے درمیان MOU پر دستخط کیے گئے۔ 2018ء میں حکومت ہند نے اس عالمی ثقافتی ورثے سے متعلق یہاں آنے والے سیاحوں اور عام افراد کو معلومات کی فراہمی کے لیے ایک مرکز ترجمانی یا انٹرپریٹیشن سنٹر کی تعمیر کے لیے فنڈس کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔ آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر کے تحت ڈپارٹمنٹ آف ہیریٹیج کی جانب سے تحفظ کا کام جاری ہے۔ جن میں آثار قدیمہ کے ریسرچ، ان تمام آثار کی کھدائی، ماہرین کی رہنمائی، تاریخی عمارتوں کے حالات کا تجزیہ شامل ہے۔
بیسویں صدی کی سیمنٹ کی تہیں
اس ورثے کے تحفظ سے قطب شاہی دور کے معماروں اور تاریخی عمارتوں سے متعلق معلومات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان تاریخی عمارتوں میں بیسویں صدی میں جو سیمنٹ کی تہیں‘ لگائی گئی تھیں انہیں نکالنے سے عبداللہ قطب شاہ کے مقبرہ کی ابھری ہوئی جالی کا پتہ چلا جسے بحال کردیا گیا۔ سلطان قلی کے مقبرے سے متصل باغ اور اس کا دروازہ بھی جو مٹی کے ڈھیر میں دفن ہوگیا تھا۔ اسے بھی بحال کیا گیا۔ حمام کا اصلی فرش جو موجودہ سطح سے تین تا چار فٹ نیچے ہیں اور محمد قطب شاہ کے مقبرے کی گنبد کے اصل ٹائلس کو بحال کیا جانا باقی ہے۔
سلطان محمد قلی شاہ کے گنبد کی 600 کیوبک میٹر پتھر سے دوبارہ تعمیر
بڑی باؤلی جو مکمل طور پر منہدم اور شکستہ ہوچکی تھی اُسے دوبارہ تعمیر کردیا گیا۔ سلطان محمد قلی شاہ کے گنبد کے مختلف حصوں کی اس کی اصلی حالت جیسی تعمیر نو کے لیے 600 کیوبک میٹر پتھر سے اس کی دوبارہ تعمیر کردی گئی ہے۔ سلطان قلی کے مقبرے پر لگائے گئے سیمنٹ کی پرت کو نکالنے کے بعد اس کی انتہائی نفیس، منقش طرز تعمیر کا پتہ چلا اسے بھی ماہر کاریگروں نے سولہویں صدی میں رائج کاریگری کی ٹیکنک سے بحال کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ شاہی قبرستان، اس کے باغات کو سمجھنے کے لیے شاعری اور ادب سے مدد لی گئی ہے۔
حال ہی میں یہ بھی پتہ چلا کہ محمد قطب شاہ اور ان کی ملکہ حیات بخشی بیگم کے مقبرے ایک ہی احاطہ میں تھے۔ اسی طرح ابراہیم قلی قطب شاہ ہے اور سلطان قلی قطب شاہ کے گنبد اور باغات بھی ایک ہی احاطہ میں واقع ہے۔ نندا نے بتایا کہ کھدائی اور مٹی کی صفائی کے دوران بے شمار قبور کا پتہ چلا، 23 چھوٹی چھوٹی مساجد بھی مٹی کے ڈھیر سے برآمد ہوئی ہیں۔
قطب شاہی گنبدان سات نہیں بلکہ یہاں چالیس مقبرے ہیں
عام طور پر صرف سات قطب شاہی گنبدان کا تصور ہے جب کہ یہاں چالیس مقبرے ہیں۔ جن میں سے چار مقبروں کی طرز تعمیر ہمایوں کے مقبرے کے طرز پر ہے۔ 7 باؤلیاں ہیں جن میں ڈیڑھ کروڑ لیٹر پانی کو ذخیرہ کیا گیا ہے جب کہ جب کام شروع ہوا تھا تو اس وقت ٹینکر کے ذریعہ پانی پہنچایا جاتا تھا۔ قطب شاہی خاندان کے بعض افراد اپنا مقبرہ تعمیر کروانا نہیں چاہتے تھے، انہیں زمین میں دفن کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی مسجد نما عمارت اس قبر کی نشانی کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔ ان مساجد میں نماز نہیں ہوتی بلکہ یہ علامتی عمارتیں تھیں۔ ان سب کو بحال کیا گیا۔ اس سے پتہ چلا کہ کس طرح سے قبور کو اور اسلامی طرز تعمیر کی عمارتوں کو مٹی کے ڈھیر تلے چھپا دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
Seven Tombs: حیدرآباد سیاحت کے عالمی نقشہ پر نمایاں، گنبدانِ قطب شاہی کی عظمت بحال